Education, Development, and Change
Email Dr. Shahid Siddiqui

Thursday, February 13, 2020

زیرِ آزماں: ماضی کی ایک زریں روایت کی بازیافت

 زیرِ آسماں: ماضی کی ایک زریں روایت کی بازیافت  
جمیل آصغر جامی


ایک وقت تھا جب صحافت خبر و ابلاغ کے ساتھ ساتھ ہماری بہترین علمی اور ادبی
 روایات کی امین تھی۔ ہر کس و ناکس اس "کوچہِ جاناں" میں جانے کا نہ تو متمنی ہوتا، اور نہ ہی متحمل۔ یہ پرائیویٹ میڈیا کے موجودہ ہیجانی و سطحی دور سے پہلے کی بات ہے جب "سینئر تجزیہ نگار" بنتے بنتے بال سفید ہوجاتے۔ یہ لفظ و قلم کی ارزانی سے بھی پہلے کی بات ہے۔ یہ اس وقت کا قصہ ہے جب صحافت چمکتی گاڑیوں، جائیدادوں، بیک بیلنسوں، ہوٹلوں میں پرتکلف دعوتوں، حکومتی حلقوں میں چاپلوسیوں کا نہیں بلکہ دار و رسن، کال کوٹھڑیوں، کالے پانیوں، زنجیروں، زندانوں، کتب خانوں کا نام تھا۔  اس کوچہِ صحافت میں جو اذہان پروان چڑھے انھوں نے ایک طرف ہمارے ادبی و علمی ورثے کو وقار بخشا تو دوسری طرف ہماری تاریخ کے نازک ترین ادوار میں ایک زبردست تحریکی کردار کے ذریعے ہمارے ملی و قومی وجود کے تخفظ کا سامان فراہم کیا۔ اسی صحافت کے جلو میں کالم نویسی کے نام سے ایک ایسے طرزِ کلام کی بنیاد پڑی جس کو بعد میں ایک ادبی صنف (genre) کا مقام حاصل ہوا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صحافت اپنا مقام اوراعتبار کھوتی رہی اور کالم نویسی محض سستی تبصرہ نگاری اور بازاری کٹ ججتی تک محدود ہو کر رہ گئی جس میں زبان و اظہار کی خوبصورتی کا کوئی دخل نہ رہا۔

ایسے میں ڈاکٹر شاہد صدیقی صاحب کا شمار بجا طور پر ان چند کالم نویسوں میں ہونا چاہیے جو ہماری اس زریں روایت کی بازیافت میں مصروفِ کار ہیں۔ آج انھوں نے کمال محبت سے ناچیز کو اپنی کتاب "زیر آسماں" پیش کی جو ان کے کالموں کا مجموعہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے ہاں، سیاسی کٹ حجتی نہیں، سطحی تبصرے نہیں، کہیں پگڑی اُچھالنے یا کسی مخالف کا دامن تار تار کرنے کی کوئی بھونڈی کوشش نہیں۔ بلکہ یہاں ماضی کے فراموش دریچے ہیں، ایسی گمنام شخصیات کے تذکرے ہیں جن کا ہماری معاصر دنیا کی نقش نگاری میں کلیدی کردار رہا ہے، یہاں آزادی کے متوالوں کا ذکر ہے، تاریخ کے روشن ابواب ہیں، ادب ہے، فلسفہ ہے، زندگی اور اس کے اسرارو رموز پر سوچ بچار ہے،  پراسرارئیت ہے، فن ہے، سُر کا ذکر ہے اور سنگیت کی بحثتیں ہیں۔ اللہ تعالی ڈاکٹر صاحب کے قلم کی جولانی کو یوں ہی برقرار رکھے اور ہماری ماضی کی بازیافت کی اس کامیاب کوشش پرانہیں اجرِ عظیم سے نوازے۔ میں ڈاکٹر صاحب کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ انھوں نے مجھے عزت بخشی۔

No comments:

Post a Comment