زیرِ آسمان" پر"
پروفیسر فتح محمد ملک صاحب کا تبصرہ
پروفیسر ڈاکٹر شاہد صدیقی ہمارے ممتاز و منفرد ماہرِ تعلیم ہیں ۔ وہ ایک مدت سے درس و تدریس کے ساتھ ساتھ تخلیقی اور تحقیقی شعبوں میں بھی سرگرم عمل چلے آ رہے ہیں ۔ انگریزی اور اردو ہر دو زبانوں میں دادِ تصنیف و تالیف دینے میں منہمک ہیں ۔ ادبیات اور لسانیات اُن کا پسندیدہ موضوع ہے اور اس باب میں انھوں نے یادگار خدمات سر انجام دی ہیں ۔ اس پر مستزاد یہ کہ وہ گزشتہ کچھ عرصے سے اردوصحافتی کالم نگاری کو بھی ادبیت اور علمیت کی شان بخشنے میں مصروف ہیں ۔ اُن کے کالموں کا زیرِ نظر مجموعہ نادرونایاب موضوعات پر اپنے اور ہمارے شان دار ماضی کو ازسرِ نو زندہ وپائندہ کر دینے کی تمنا کا صورت گر ہے ۔
کتاب کا پہلا حصہ شخصی مرقع جات پر مشتمل ہے ۔ یہاں اُنھوں نے اپنی والدہ ماجدہ، اپنے والدِ بزرگوار، اپنے بچپن، لڑکپن اور جوانی کی ناقابلِ فراموش یادیں پیش کی ہیں ۔ یہاں وہ ہماری ملاقات اپنے گاءوں کی ایک غریب اور غیّور لڑکی سکینہ سے بھی کرواتے ہیں ۔ پھر وہ وقت آ پہنچتا ہے ۔ جب اُنھیں حصولِ علم کی خاطر راولپنڈی آنا پڑتا ہے ۔ راولپنڈی صدر کی بینک روڈ اور لال کرتی اُن کا علمی و ادبی تربیت گاہوں کا مقام حاصل کر لیتی ہیں ۔ اُس زمانے کی بینک روڈ کے کافی ہاءوسز شام پڑتے ہی ادبی مراکز کا روپ دھار لیتے تھے اور آس پاس سے ادیب یہاں آن براجتے تھے ۔ گرما گرم ادبی اور سیاسی مباحث جاری رہتے تھے ۔ دن میں سر سید کالج اور گورڈن کالج کے اساتذہ کا فیضان حاصل کرنے کے بعد شام کو ان ادبی مراکز میں عصری آ گہی اور گرما گرم ادبی مباحث
گو یادرسیات کو ادبیات کے مزاج سے گہری آشنائی بخشتے تھے ۔
’ستونِ دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ‘ کے عنوان سے جو مضامین زیرِ نظر کتاب میں شامل ہیں وہ ہمارے فراموش کردہ ماضی کو نئی زندگی بخشتے ہیں ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی ہند میں انتہائی بہادری کے ساتھ سامراج کے مقابلے میں ڈٹ جانے والے حریت پسندوں کی کہانیاں ہمارے اجتماعی حافظے سے محو کر دی گئی تھیں ۔ شاہد صدیقی صاحب نے یہاں برطانوی استبداد کے خلاف مزاحمت کے ان استعاروں میں جان ڈال دی ہے ۔ یوں اُن کی یہ کتاب اُن جاں بازوں کے کارہائے نمایاں کو پھر سے یاد کر کے ہمارے اجتماعی حافظے کو ثر و ت مند بنانے کا موَثر وسیلہ بن گئی ہے ۔ ہماری جس تاریخِ حریت کو سامراجی مقاصد کی خاطر ہماری نوجوان نسلوں سے چھپا دیا گیا تھا اور قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک مسلسل پردہَ راز میں رکھنے کا اہتمام کیا گیا تھا، اُسے پھر سے زندہ کر کے شاہد صدیقی صاحب نے ہماری نئی نسلوں پر احسان کیا ہے ۔ کتاب کے اس حصے کا اختتام سرور شہید اور ذوالفقار علی بھٹو شہید کی ایثار پیشہ شجاعت کی کہانیوں پر ہوتاہے ۔ یوں ہماری قومی تاریخ ایسٹ انڈیا کمپنی سے شروع ہو کر بھٹو شہید تک سمٹ آئی ہے ۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں یہاں ‘ چیلیانوالہ : پنجابی مزاحمت کا آخر ی مورچہ‘ کے آخری پیراگراف سے چند جملے قارئین کرام کی نذر کردوں :
’’یہ درخت بھی یقیناً گواہ ہوں گے جب شیر سنگھ نے جنرل گف کی فوج کو آگے بڑھنے سے روک دیا تھا اور اس خیال کو غلط ثابت کیا تھا کہ فرنگی فوج ناقابلِ شکست ہے ۔ بڑ کے بوڑھے درخت سر جھکائے کھڑے ہیں شائد وہ اور میں ایک ہی بات سوچ رہے ہیں ۔ یہ تو فرنگیوں کی یاد گاریں ہیں مگر ان خاک زادوں کی یادگاریں کہاں ہیں جو اس سر زمین سے اٹھے اور جنھوں نے اپنے خون کا نذرانہ دے کر اپنی مٹی کی حفاظت کی تھی، وہ جو اپنی آنکھوں میں حریت کے خواب لے کر نکلے تھے اور بے نشاں راہوں میں کہیں کھو گئے ۔ ‘‘
شجاعت ، بغاوت اور ایثار کی یہ کہانیاں ہم بڑی حد تک بھول چکے ہیں ۔ سلطان سا رنگ خان، دُلاّبھٹی، رائے احمد خان کھرل، بھگت سنگھ، حاجی ترنگ زئی کے سے شیر دل باغیوں کی برطانوی سامراج کے خلاف مزاحمت کی نقش گری ہمارے ماضی ہی کا نہیں مستقبل کا بھی بیش قیمت سرمایہ ہے ۔ اسے ازسرِ نو قومی حافظے میں زندہ و پائندہ رکھنا لازم ہے ۔ ڈاکٹر شاہد صدیقی نے یہ کارنامہ سر انجام دے کر ہماری تاریخِ حریت کو پھر سے تازہ کر دیا ہے ۔
’قدیم بستیوں کا سفر‘ کے عنوان سے موہنجو داڑو اور ہڑپہ سے لے کر کٹاس راج اور توپ مانکیالہ تک متعدد قدیم بستیوں کی یادیں بھی اس کتاب کا سرمایہ ہیں ۔ مولانا جلال الدین رومی کے شہر قونیہ کی یادوں کے ساتھ ساتھ تحریکِ آزادی َ کشمیر کے موضوعات بھی زیرِ بحث لائے گئے ہیں ۔ ان سب موضوعات پر صدیقی صاحب نے بڑے انہماک کے ساتھ دادِ تحقیق دی ہے مگر مجھے اس کتاب کا جو حصہ سب سے زیادہ پُر کشش محسوس ہوا وہ ’’ میرے آس پاس ‘‘ ہے، یہاں ہ میں اُن کے گھر، اُن کے خاندان اور اُن کی ابتدائی تربیت سے آگہی نصیب ہوتی ہے ۔ لکھتے ہیں :
’’مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ماں نے ہم بہن بھائیوں کی کبھی پٹائی کی ہو ۔ انھوں نے کبھی اپنی پریشانی کو ہم تک منتقل نہ کیا ۔ بہت مشکل حالات میں بھی کبھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ۔ ہماری چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر کبھی قدغن نہیں لگائی ،البتہ ایک بات کی سختی سے تاکید تھی کہ گالم گلوچ کرنے والے بچوں کے ساتھ نہ کھیلیں ۔ وہ زبان کی شائستگی کی قائل تھیں ۔ ہم بچوں کو بھی ادب سے بلاتیں ہمیشہ دوسروں کی عزت کی تلقین کرتیں ۔ انھوں نے ہ میں ایک سادہ اصول سمجھایا کہ ہم دوسروں کی عزت کریں گے تو لوگ ہماری عزت کریں گے ۔ اسی طرح دوسروں کی کامیابیوں پر بہت خوش ہوتیں تعریف میں کبھی بخل سے کام نہ لیتیں ۔ ہ میں بھی ہمیشہ نصیحت کی کہ اچھائی کہیں بھی ہو تو تعریف میں کنجوسی نہ کریں ۔ ‘‘
یہ تو ہیں والدہ محترمہ ۔ اب آئیے والدِبزرگوار کی جانب ۔ لکھتے ہیں :
’’گاءوں کی وہ چاند بھری راتیں جب ہم بچے لکن مٹیی کا کھیل کھیلتے تھے، جب میری ساری کائنات میرے ماں باپ، بہن، بھائی اور دوستوں تک محدود تھی ۔ میری اس کائنات کا مرکز میرے والد صاحب تھے ۔ میں آنکھیں بند کر کے ان دنوں کا تصور کروں تو ان کا شفیق اور روشن چہرہ سامنے آتا ہے آسمان پر سب سے زیادہ روشن ستارے کی طرح ۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ انھوں نے کبھی ہماری پٹائی کی ہو یا کبھی خفا ہوئے ہوں وہ ہم بچوں کو بھی تم کے بجائے آپ کہہ کر بلاتے ۔ انھوں نے مالی وسائل کی کمی اپنی محبت اور شفقت سے پوری کی تھی ۔ ‘‘
مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پروفیسر ڈاکٹر شاہد صدیقی کا بچپن ہمیشہ سے اُن کا سب سے بڑا سر چشمہَ فیضان چلا آرہا ہے ۔ زیرِ نظر کتاب بھی اُسے سر چشمے سے پھوٹی ہے اور ابھی مزید کئی کتابیں یہیں نمودار ہوں گی ۔ یہ کتاب ان کالموں پر مشتمل ہے جو وقتاً فوقتاً روزنامہ دُنیا میں شاءع ہوتے ہیں ، مگر یہ صحافتی تحریریں ہر گز نہیں یہ علمی و ادبی مضامین ہیں ہنگامی اور وقتی موضوعات پر خیال آرائی نہیں ۔ اس وصف نے اس کتاب کو دوامی قدروقیمت بخش دی ہے ۔
No comments:
Post a Comment