ماسٹر فضل صاحب
شاہد صدیقی
بعض دفعہ چشم تصور بھی کیا کیا منظر دکھاتی ہے؛ کبھی بیابانوں میں مہکتے گلاب ‘کبھی صحراؤں میں میٹھے پانی کے چشمے اور کبھی گھپ اندھیرے میں جگ مگ کرتے سنہری دن۔ اس روز بھی ایسے ہی ہوا۔ ایک مدت بعد میرا گزر راولپنڈی کی تمیز الدین روڈ سے ہوا‘ جہاں سے بائیں طرف مڑیں تو سڑک لالکرتی کی طرف جاتی ہے۔ اسی موڑ پرایک بڑی عمارت واقع ہے‘ اسے کبھی ایوب ہال کے نام سے جانا جاتا تھا ۔ یہیں پر کبھی قومی اسمبلی کے پُرشور اجلاس ہوا کرتے تھے ۔ اجلاس میں سپیکر کے فرائض مولوی تمیز الدین ادا کرتے تھے۔ ان کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ یہ 1962-63ء کا ذکر ہے۔ مولوی تمیز الدین کے انتقال کے کئی برس بعد اس سڑک کا نام تمیز الدین روڈ رکھا گیا ۔میں ایوب ہال سے لال کرتی کی طرف مڑا‘ تو اچانک دائیں ہاتھ ایک بوسیدہ عمارت پر نظر پڑی
میں نے گاڑی کو سڑک کے کنارے روکا اور نیچے اتر آیا ‘وہ اکتوبر کے مہینے کی ایک چمکیلی صبح تھی اور اتوار کا دن۔ سڑک پر ٹریفک معمول سے بہت کم تھی ۔ میں گاڑی کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا ۔میرے سامنے ایک ٹینٹ سروس کے زیر استعمال ایک عمارت تھی ‘ جو دیکھتے دیکھتے ہوا میں تحلیل ہونے لگی اور اس کی جگہ وہی مانوس عمارت آگئی‘جس کے چارستون تھے‘ جو میرا پرائمری سکول تھا۔مجھے یاد ہے‘ میںتیسری جماعت میں اس سکول میں آیا تھا‘ تو سب کچھ اجنبی تھا۔ میں دوسروں کی نظروں سے بچنے کیلئے ان ستونوں کی اوٹ ڈھونڈتا رہتا تھا۔
میں نے گاڑی کو سڑک کے کنارے روکا اور نیچے اتر آیا ‘وہ اکتوبر کے مہینے کی ایک چمکیلی صبح تھی اور اتوار کا دن۔ سڑک پر ٹریفک معمول سے بہت کم تھی ۔ میں گاڑی کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا ۔میرے سامنے ایک ٹینٹ سروس کے زیر استعمال ایک عمارت تھی ‘ جو دیکھتے دیکھتے ہوا میں تحلیل ہونے لگی اور اس کی جگہ وہی مانوس عمارت آگئی‘جس کے چارستون تھے‘ جو میرا پرائمری سکول تھا۔مجھے یاد ہے‘ میںتیسری جماعت میں اس سکول میں آیا تھا‘ تو سب کچھ اجنبی تھا۔ میں دوسروں کی نظروں سے بچنے کیلئے ان ستونوں کی اوٹ ڈھونڈتا رہتا تھا۔
سکول کے کل تین کمرے تھے؛ دو تو عام سائز کے اور ایک بڑا ہال ۔ سکول میںایک کمرہ خاص تھا ۔اس کمرے میں سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب کا دفتر بھی تھا اور پانچویں درجے کی کلاس بھی یہیں ہوتی تھی۔ اس کے بعد میرا بہت سکولوں سے واسطہ رہا ‘لیکن کبھی یہ نہیںدیکھا کہ کسی ہیڈ ماسٹر کا دفتر اور کلاس ایک ہی کمرے میں ہوں۔ اس کمرے کا دروازہ ساتواں در تھا‘ جسے کھولنے سے ہم سب ہچکچاتے تھے۔ پانچویں جماعت کے انچارج اور سکول کے ہیڈ ماسٹر ماسٹر فضل صاحب تھے ۔دراز قد‘ سفید رنگ اور سرمئی آنکھیں ‘ چہرے پرایک جلالی کیفیت ہر وقت طاری رہتی ۔ آواز میں ایک خاص کڑک ۔سکول کے اساتذہ ‘ چپراسی اور طلباء اُن کی آواز سن کر سہم جاتے ۔ پورے سکول میںایک چپراسی ہوتا تھا‘جس کا نام اسماعیل تھا ‘اسے میں نے ہر وقت کام کرتے دیکھا ‘شاید وہ بولتا بھی ہو گا‘ لیکن میں نے اسے کبھی بولتے نہیںسنا۔ اسی طرح سکول کی صفائی کرنے والی ایک ہی مہترانی تھی‘ جس کا نام گجری تھا ‘اس کی ناک کا ایک بڑا سا کوکا اس کی خاص پہچان تھا۔
ماسٹر فضل صاحب کی زندگی کا واحد مقصد ہمیں حساب میں طاق کرنا تھا ۔ذرا سی غلطی پر وہ غضب ناک ہو جاتے اور پھر سزا کے دوران وہ حدود کا تعین نہ کرتے۔ اس زمانے میں پانچویں جماعت میں وظیفے (سکالر شپ) کا امتحان علیحدہ سے ہوتا تھا۔ سکولوں میں اس بات پر مقابلہ ہوتا کہ کس سکول کے بچوں نے زیادہ سکالر شپ لئے ہیں۔ ماسٹر فضل صاحب نے تو اس مقابلے کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا تھا۔ سکول شروع سے ایک گھنٹہ پہلے اور چھٹی کے ایک گھنٹہ بعد ہمیں ایکسٹرا پڑھایا جاتا تھا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس کی کوئی فیس نہیں تھی۔ ماسٹر فضل صاحب ویسٹریج میں رہتے تھے۔ میرا خیال ہے فجر کی نماز بعد وہ آرام نہیں کرتے تھے ۔چائے کا ایک کپ پیتے اور اپنی سائیکل کو لے کر سکول کی راہ لیتے ۔سردیوں کی تیز یخ بستہ آواؤں میں وہ تیز تیز پیڈل چلاتے‘ تا کہ کلاس سے لیٹ نہ ہوں۔ ادھر ہم ہر روز دعائیں کرتے کاش کچھ انہونی ہو جائے اور ماسٹر فضل سکول نہ آئیں ‘ لیکن افسوس ہماری دعائیں کبھی قبول نہ ہوتیں۔ ہم ایوب ہال کے سامنے اس موڑ کی طرف نظریں جمائے کھڑے ہوتے‘ جہاں سے ماسٹر فضل صاحب نے نمودار ہونا ہوتا اور پھر اچانک ہمیں دور سے وہی مانوس منظر دکھائی دیتا۔ ماسٹر فضل صاحب چیک کا کوٹ زیب تن کئے‘ سر پر ٹوپی ‘کانوں پر مفلر اور شلوار کے پا ئنچوں پر کلپ لگائے ‘ہال کا موڑ کاٹتے تو ہم بھاگ کر اپنی کلاس میں چلے جاتے۔ سکول کے سامنے شہتوت کا ایک درخت بھی تھا۔ اس کا ایک خاص مقصد ماسٹرفضل صاحب نے یہ دریافت کیا تھا کہ اس کی لچکیلی شاخوں سے چھڑیاں بنائی جائیں۔ ماسٹر فضل کے حکم پر اسماعیل شہتوت کے درخت سے شاخیں اتارتا اور انہیں چھڑیوں کی شکل دیتا۔
ماسٹر فضل صاحب نے ہمیں حساب میں اتنی پریکٹس کرائی کہ ہمارے لئے حساب کے مشکل سے مشکل سوال ایک عام سی بات تھی۔ وظیفے کے امتحان میں ایک حصہ مینٹل میتھ کا بھی ہوتا ہے‘ جس میں ایک سوال کیا جاتا اور پھر چند سیکنڈ میں آپ نے اس کا جواب پرچے پر درج کرنا ہوتا ۔ماسٹر فضل صاحب کی زندگی اس ایک خواب میں سمٹ آئی تھی کہ اُن کے سکول میں سکالر شپس ہولڈرز کی تعداد سب سے زیادہ ہو۔ اس ایک خواب کی تکمیل میں اُن کی صبح ہوتی اور رات ڈھل جاتی۔
ماسٹر فضل صاحب کا اپنا ایک بیٹا خلیق بھی ہماری کلاس میں پڑھتا تھا ۔میں اور خلیق بد قسمتی سے پہلی قطار میں بیٹھتے تھے اور یہ حکم ماسٹر فضل صاحب کا تھا ۔ مجھے یاد ہے ایک بار خلیق نے حساب کے ایک سوال میں غلطی کی تو انہوں نے اسے اٹھا کر دیوار سے دے مارا‘ اس غصے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اتنا آسان سوال تم نے غلط کیسے کر دیا۔مجھے سردیوں کی صبحیں وہ اچھی طرح یاد ہیں‘ جب ہم اپنے ٹاٹ اٹھائے ماسٹر فضل صاحب کے ساتھ قریبی میدان میں جاتے جہاں دھوپ ہوتی ‘ ٹاٹوں کو پہلے جھاڑا جاتا اورپھر ترتیب سے بچھایا جاتا ہماری کوشش ہوتی کہ ٹاٹوں میں جہاں سوراخ ہیں ان سے ہٹ کر بیٹھا جائے‘ماسٹر فضل صاحب سامنے کین کی کرسی پر بیٹے اور پھر سوالات کی نہ ختم ہونے والی مشق شروع ہو جاتی۔ان دنوں مجھے خوابوں میں بھی سولات آتے اور جوابات دیتے دیتے میری آنکھ کھل جاتی ماسٹر فضل صاحب کا پہاڑوں پر بڑا زور تھا‘ ہر روز پریکٹس کی جاتی ۔
آخر وہ دن آ گیا‘ جس کے لئے ماسٹر فضل صاحب نے اپنی تمام توانائیاں صرف کر دی تھیں۔ ہم سب ایک قطار میں امتحان گاہ کی طرف روانہ تھے‘ جولوکو شیڈکے ہال میں تھا‘ اس روز ماسٹر فضل صاحب کی حالت دیدنی تھی۔ وہ ہر ایک کو نصیحت کر رہے تھے۔ دھیا ن سے پرچہ حل کرنا ‘کوئی مشکل نہیں ہو گی۔ ہم نے سارے سوالوں کی پریکٹس کی ہوئی ہے ‘گھبرانا نہیں ۔ ا س دوران ان کے سرخ و سفید چہرے پر کبھی تشویش کی پرچھائیں لہراتی کبھی مسکرایٹ کی لہر پھیلتی۔ اس روز امتحان دیتے ہوئے ہمیں یوں لگ رہا تھا کہ ماسٹر فضل صاحب کی نگاہیں ہمیں دیکھ رہی ہیں۔ دھیان سے پرچہ حل کرنا۔ گھبرانا نہیں ‘ مجھے یوں لگا کہ یہ تو بڑا آسان سا امتحان تھا۔ جب پانچویں جماعت کے سکالر شپ کا نتیجہ آیا تو راولپنڈی میں ہمارے سکول کی پہلی پوزیشن تھی‘ جس کے سکالر شپس کی تعداد سب سے زیادہ تھی ۔ مجھے وہ سارے دن رات یاد آنے لگے؛ سردیوں کی صبح سے شاموں تک کلاس‘ بوسیدہ سوراخوں والے ٹاٹ ‘ صبح سے لے کر شام تک سوالوں کی گردان اور ایسے میں ماسٹر فضل صاحب کا چہرہ ‘جس پر ایک نتیجہ سن کر ایک اطمینان کی کیفیت تھی کہ ان کی محنت ٹھکانے لگی تھی ۔ کیا بے لوث لوگ تھے‘ جن کی زندگی کا محور صرف علم کی ترسیل تھا؛ اچانک مجھے خیال آیا میں کب سے گاڑی سے ٹیک لگائے ‘اس عمارت کو دیکھ رہا ہوں‘ جو کبھی میراسکول تھا ‘لیکن اب جہاں ٹینٹ سروس کا کاروبار ہے ۔ بعض دفعہ چشمِ تصور بھی کیا کیا منظر دکھاتی ہے؛ کبھی بیابانوں میں مہکتے گلاب ‘کبھی صحراؤں میں میٹھے پانی کے چشمے اور کبھی گھپ اندھیرے میں جگ مک کرتے سنہری دن!۔
Sir ! What do you think that these types of teachers still exists in our education sector.
ReplyDeleteThey are there but very rare.
Deleteاستاد کا صحیح روپ نظر آیا۔ وہ کلچر تو اب باقی نہیں رہا لیکن اب ہمارے پاس اُس کلچر کے اثرات لیے مخلص اساتذہ موجود ہیں، جن سے سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔
ReplyDeleteماسٹر صاحب کی خالص اور پُر عزم شخصیت پہ خاکہ لکھ کے حق ادا کیا، اور میں یہ کہنا چاہوں گی کہ بحیثیت استاد بہت کچھ سیکھنے کو مِلا۔ شکریہ سّر
Haleema sadia
Thanks Sadia.
DeleteHe was infact
ReplyDeleteReal teacher
Thanks. Pl write your name with your comments.
Deleteانہی اساتذہ کا فیض ہے ناں سر کہ آج شاہد صدیقی کی ایک پہچان ہے۔
ReplyDeleteان اساتذہ کی جھلک ابتدائی 2،3 کلاسوں میں بھول گئے لیکن ان کے اثرات دیکھتے آرہے ہیں۔ ان کی مہک آپ جیسے اساتذہ کی صورت میں محسوس ہوتی ہے۔
خوبصورت تحریر
Thanks Indeed.
DeleteYes, this sounds like our school in Dera Ghazi Khan. The teachers were very hard working. At that time, the children of elite were also in the same public school. We had a physics teacher who used to get very upset when we could not formulate good questions. His all emphasis was to train us to formulate good questions. For answers we use to struggle for days in the class and lab. I have not yet seen or met such committed teachers.
ReplyDeleteThanks for your reflections. Please write your name with comments. Thanks.
Deleteکتنے عظیم استاد تھے جن کا مقصد علم کا نور پھیلانا ہوتا تھا. ان کا خلوص دلوں کو چھو لیتا تھا اسی لئے ان کی مار بھی پیار معلوم ہوتی تھی. اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر
ReplyDeleteبہت خوبصورت تحریر جو فکر انگیز بھی ہے جو ہمیں ایک موقع فراہم کرتی ہے کہ تعلیم کی موجودہ اور گزشتہ صورت حال کا ایک تقابلی جائزہ لیا جائے ۔ پرائمری اسکول کا ٹینٹ سروس عمارت می بدل جانا بھی تعلیم کی مسلسل زوال پزیری کا ایک استعارہ ہے ۔تعلیم جو ایک نوبل پیشہ تھا اور استاد جو ایک مقدس شخصیت تھا آہستہ آہستہ یہ نوبلٹی اور تقدس تحلیل ہو کر سرمایاکاری اقدار میں ڈھل گئے ۔ تعلیم محض کاروبار اور مارکیٹنگ کی چیز بن گی ۔۔اس سے جڑی ہر اعلی قدر سرمایہ کاری اہداف کی نظر ہو گیی ۔ تب ماڈرن تدریس اور جدید اور مہنگے زرائع اور آڈیو ویژول معاونات بھی نہیں تھے پھر بھی ڈاکٹر عبدالاسلام ، ڈاکٹر قدیر اور آپ جسے سکالرز انھیں سکولوں سے نکلتے تھے اور آج کے نظام تعلیم نے ہمیں ایک بھی ایسا محقق یا سائنٹسٹ نہیں دیا ۔
ReplyDeleteGreat write up.
ReplyDeleteIt reminds my primary school in Pindi. Good old days.
Salam to Teacher.
اچھے استاد کی لگ کی مثال۔ وقت اور طریقے بدل گے لیکن اچھے استاتذہ اب بھی موجود ہیں میرے اور اپ جیسوں میں۔۔۔۔۔
ReplyDeleteWonderful article as always. Ur writings are true reflections of our deep thoughts n hidden emotions.
ReplyDeleteCol kashif
Wonderful writing. True reflection of our emotions which have been beautifully written by Dr shahid siddiqui.
ReplyDeleteایک عظیم استاد کو خوبصورت خراجِ تحسین
ReplyDeleteبہت اعلی سر
ReplyDelete