Education, Development, and Change
Email Dr. Shahid Siddiqui

Sunday, June 23, 2019

شکیل عادل زادہ: اے عشقِ جنوں پیشہ

شکیل عادل زادہ: اے عشقِ جنوں پیشہ

شاہد صدیقی


کراچی میں ساحلِ سمندر پر واقع ایک معروف ریستوران ۔ رات کاوقت، ٹھنڈی ہوا اور سمندر کی ڈوبتی ابھرتی لہریں۔پانی کی سطح کوچھُوکر ہوا میں بلندہوتے بگلے اوران کے سفیدپروں کواُجالتی ہوئی روشنیاں۔ ایک خواب کاسامنظر۔ لکڑی کے بنچوں پر آمنے سامنے بیٹھے میں اورشکیل عادل زادہ ۔وہی سب رنگ کے عشق میں گرفتار کرنے والا شکیل عادل زادہ ۔میں نے سمندر پر نگاہ کی ایک پرندہ اپنی لہک میں باقی پرندوں سے بہت آگے بہت اوپر اڑتاچلاجارہاتھا۔
میں نے اپنے سامنے بیٹھے شکیل عادل زادہ کودیکھاجس کا معاملہ بھی کچھ ایساہی تھا۔وہ جواپنی طرز کی نثرکاموجد تھا اور جس نے
ڈائجسٹ کی دنیامیں ایک انقلاب برپا کردیاتھا۔جس کے سب رنگ کی پتنگ اڑتے اڑتے آسما ن کی بلندیوں میں تارہ بن گئی تھی۔ جس نے ہماری نسل کے کتنے لوگوں کوایک طویل عرصے تک اسیربنائے رکھا۔اس پر کئی برس بیت گئے ہیں۔ سب رنگ کاآفتاب اب کنارے پرجالگا ہے لیکن اس کی تمازت ہے کہ کم ہونے میں نہیں آتی۔
شکیل عادل زادہ سے میرا پہلاباقاعدہ تعارف سترکی دہائی میں ہوا۔ یہ دہائی ادب اورموسیقی میں نئے تجربوں کی دہائی تھی۔سب رنگ جنوری1970میںایک نئی چھب، ایک انوکھی آن بان کے ساتھ نمودار ہوا۔ سب رنگ کا جواں سال مدیر عالمی ڈائجسٹ میں کام کرنے کا تجربہ اپنے ساتھ لایاتھا۔ شکیل عادل زادہ کو معلوم تھا کہ سب رنگ کوکچھ نیاکرکے دکھاناہوگا۔ اس کی جیب میں سرمایہ تونہیں تھا لیکن ایک جنون تھا، ایک جذبہ تھا، ایک عشق تھا۔ کچھ نیاکرنے کی امنگ، کچھ الگ کرنے کی تڑپ۔سب رنگ کا پہلا شمارہ پانچ ہزار کی تعدادمیں شائع ہوا۔سال کے آخرتک یہ
تعدادتیس ہزارہوگئی۔ پانچ سال تک یہ تعدادایک لاکھ سے اوپرچلی گئی تھی اورپھرڈیڑھ لاکھ سے تجاوزکرگئی۔ یہ اس وقت کسی بھی رسالے کی ریکارڈ اشاعت تھی۔ وہ کیاعوامل تھے جنہوںنے مختصرعرصے میں سب رنگ کوبرصغیر کاایک ممتاز اورکثیر الاشاعت رسالہ بنادیا۔ اپریل2017میں مجھے معروف کالم نگار رئوف کلاسرا کے ہمراہ شکیل عادل زادہ سے ایک طویل انٹرویو کاموقع ملاجس میں سب رنگ کے امتیازات پربھی گفتگو ہوئی۔ شکیل عادل زادہ کا کہناتھا کہ کہانیوں کے انتخاب کاایک کڑا معیار اورطریق کار تھا۔اسی طرح ایک مسودے کی پروف ریڈنگ پانچ مختلف افراد کرتے تھے۔زبان وبیان کی درستی کاخاص اہتمام تھا اور اس شعبہ کے سربراہ معروف شاعر اورزبان دان انورشعورتھے۔ کہانیوں کے ہمراہ سکیچزکی روایت بھی سب رنگ سے شروع ہوئی، اقبال مہدی اوربعد میں انعام راجہ کے سکیچز نے کہانیوں کوچارچاندلگادیئے۔ شکیل عادل زادہ ہرچیز کودرجۂ کمال پردیکھنے کاخواہش مندتھا۔ سب رنگ کے سرورق کیلئے اس وقت کے واٹرکلر کے بڑے مصور منظور مرزا کا انتخاب ہوا بعدمیں سب رنگ کے خوبصورت سرورق بنانے میں ذاکر کے ُموقلم کاحصہ تھاکہانیوں کے درمیان کہیں کہیں اقوال زریں، لطائف اورہلکی پھلکی تحریریں چوکھٹوں میںنظرآتیں۔
سب رنگ میںاداریے کے علاوہ ایک ذاتی صفحہ ہوتا جسے شکیل عادل زادہ خود تحریر کرتے اوریہ سب رنگ کے قارئین سے انکی ذاتی گفتگو ہوتی۔ شکیل عادل زادہ کی ٹکسال میں وہ خوش رنگ لفظ ڈھل کر نکلتے جن کاروپ سب سے الگ اورتاثیرسب سے جداہوتی۔ سب رنگ میں معروف ادیبوں کی تحریروں کی ایک کہکشاں ہوتی جن میں راجندرسنگھ بیدی، اشفاق احمد، منٹو،کرشن چندر، احمدندیم قاسمی، شوکت صدیقی، اسدمحمدخان، بہزاد لکھنوی شامل ہیں۔ سب رنگ کاایک اوراحسان عالمی ادب سے کہانیوں کے تراجم کی اشاعت تھی، مغربی ادب سے تراجم کے علاوہ سب رنگ میں جنوبی ایشیا کی کہانیوں کاانتخاب بھی چھپتاتھا ہرکہانی اورکہانی کارکے بارے میں خوبصورت تعارفی جملے بھی ہوتے۔ایک کہانی کے بیسیوں عنوانات سوچے جاتے ۔یہ تھا وہ عشق جس میں سب رنگ کے
دفترمیں کام کرنے والے سب لوگ مبتلاتھے۔
دیکھتے ہی دیکھتے سب رنگ ایک جذبہ اورجنون بن گیا لوگ اسکے انتظار میںایک ایک دن گنتے شکیل عادل زادہ کوبخوبی علم تھا کہ سب رنگ کی مقبولیت کی وجہ اس کا اعلیٰ معیارہے ۔اسی معیار کوبرقرار رکھنے کی کوشش میں سب رنگ کی اشاعت میں وقفہ پڑنے لگا۔ کوئی اوررسالہ ہوتاتو باربار کی تاخیرسے لوگ منہ موڑلیتے لیکن یہ سب رنگ تھا اوراس کے قارئین اس کے دیوانے تھے۔ بعض اوقات اشاعت میںمہینوں کی تاخیر کے بعدبھی جب سب رنگ آتاتو لوگ پروانوںکی طرح امڈآتے۔
شکیل عادل زادہ محض ایک انتظامی مدیر نہیںتھا بلکہ سب رنگ کی رگوں میںسرایت کرجانے والے اس جذبے کانام تھا جس کی جھلک سب رنگ کی ہرکہانی اورہرسطر میںنظرآتی تھی اورپھر اس غا رت گرِ عشق قسط وار کہانی''بازی گر‘‘کاذکر جوشکیل عادل زادہ کے دستِ ہنر کا اعجازتھا جس کامرکزی کردار بابرزمان خاں ایک تبتی لڑکی کورا کی محبت میں گرفتاراس کی تلاش میں شہردرشہر بھٹک رہاہے۔ بابرزمان پاڑے کے شہنشاہ بٹھل کالاڈلاہے ،یہ کہانی اردو کی چندبہترین طویل کہانیوں میں شمارکی جاسکتی ہے۔میراشکیل عادل زادہ سے ایک خاموش محبت کا رشتہ کئی دہائیوں پرپھیلا ہواہے پھر ایک دن ایک اور آشفتہ سررئوف کلاسرا سے اچانک ملاقات ہوئی۔ پہلی ملاقات ہی میں مجھے یوں لگا جیسے ہم ایک دوسرے کوایک مدت سے جانتے ہیں۔انگریزی ادب کی تعلیم، سب رنگ سے محبت اور کتابوں سے عشق ہمارا مشترکہ اثاثہ تھے۔ ہم جب بھی ملتے شکیل عادل زادہ کاذکرضرور ہوتا اورہم ایک خواہش کااعادہ کرتے کہ شکیل عادل زادہ کواسلام آباد میںبلایاجائے اوران کے اعزازمیں ایک شایانِ شان تقریب برپا کی جائے۔ اسلام آباد کے موسم کی اپنی اداہے دودن گرمی پڑے تو تیسرے دن بارش ہوجاتی ہے۔ ایسا ہی ایک دن تھا اسلام آباد میں بارش کی ہلکی پھوار پڑرہی تھی یہ موسم کتنی بھولی بسری یادوں کوجگادیتاہے۔ مجھے سب رنگ اوراس سے جُڑے دنوں کی یادآگئی میںنے شکیل عادل زادہ کوفون کیا اوران سے اس خواہش کااظہار کیاکہ کیا سب رنگ کے پرانے شمارے مل سکتے ہیں؟ انہوںنے کمال مہربانی سے پرانے شماروں کے دوباکس بھجوانے کااہتمام کیا۔میںنے دوسرا باکس سب رنگ کے عشق میں شرابور رئوف کلاسرا کے حوالے کردیا کہ وہی اُس کا سب سے زیادہ حق دار تھا۔ اس روزہم دونوں سب رنگ کے پرانے شمارے سامنے رکھ کریوں خوش ہوتے رہے جیسے کسی بچے کو اس کا من پسند کھلونا مل جائے۔معروف شاعر اورمحقق عقیل عباس جعفری نے پیشکش کی ہے کہ و ہ سب رنگ کی فائل مکمل کرنے میں ہماری مدد کریں گے۔ہماری خواہش پرشکیل عادل زادہ اسلام آباد تشریف لائے جہاں ایک خصوصی تقریب میں ان کی ادبی خدمات کوخراج تحسین پیش کیاگیا ،تقریب میں ان سے سب رنگ کے احیاء کے بارے میں سوال کئے گئے۔ ایک سوال یہ بھی ہواکہ بازی گرکی کہانی کب ختم ہوگی؟ کب بابرزمان کوراسے ملے گا؟لیکن کسی کو اس کا جواب نہ ملا۔ آج یہی سوال میں نے کر اچی میں سمندر کے کنارے واقع ریستوران میں اپنے سامنے بیٹھے شکیل عادل زادہ سے کیا۔میرے سوال کے جواب میں شکیل عادل زادہ نے آسمان میں اڑتے ،روشنی میں نہاتے ہوئے پرندوں کو دیکھا پھر سمندر کی لہروں پر نگاہ کی اور بات بدل دی۔اچانک میرے ذہن میں ایک خیال چمکا۔ کیا ضروری ہے کہانی کو مکمل کیا جائے؟کیوں نہ کہانی کو ادھورا چھوڑ دیا جائے؟ جو مزا تجسس میں ہے وہ تکمیل میں کہاں؟ وہ جو منیر نیازی نے کہا ہے:
ـ ـایک اوجھل بے کلی رہنے دو
ایک رنگیں ان بنی دنیا پر 
ایک کھڑکی ان کھلی رہنے دوــ 
اس ان کھلی کھڑکی کے اس طرف کیا کیا خوش رنگ منظر ہوں گے ، ان کے تصور سے ہی سوچ مہکنے لگتی ہے ۔کبھی کبھی راستے منزلوں سے زیادہ دل فریب ہوجاتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ شکیل عادل زادہ، بابرزمان اورکورا کے دلوں کوبھی راستوں کے حسن نے اپنا اسیر بنا لیا ہے۔ہماری دعا ہے کہ بابرزمان کی تلاش کاسفرجاری رہے، کورا کی دلکشی یوںہی برقرار رہے، شکیل عادل زادہ کی دیوانگی کبھی ماند نہ پڑے اوراس کی پیشانی پرعشقِ جنوں پیشہ کااعزاز سب رنگ کی صورت یوں ہی جھلملاتا رہے۔

6 comments:

  1. Nice dicription..nodoubt their are many gr8 people like him.."kabi kabi rasty manzilo sa zeada dilfareb ho jaty hain" what a beautiful line.👌👌👌

    ReplyDelete
  2. شکیل عادل زادہ نے اس عہد کے نوجوانوں میں ادب دوستی کو فروغ دیا

    ReplyDelete
  3. کچھ باتیں ان کہی رہنے دو
    کچھ باتیں ان سنی رہنے دو
    سب باتیں دل کی کہہ دیں اگر
    پھر باقی رہ جائے گا
    سب باتیں ان کی سن لیں اگر
    پھر باقی کیا رہ جائے گا
    اک اوجھل بے کلی رہنے دو
    اک رنگیں ان بنی دنیا پر
    اک کھڑکی ان کھلی رہنے دو​

    ReplyDelete