حاجی صاحب ترنگ زئی بمقابلہ تاجِ برطانیہ
شاہد صدیقی
تاجِ برطانیہ کے خلاف سرحدی علاقے کے حریت پسندوںنے بھرپور جدوجہد کی۔ ان میں ایک اہم نام حاجی صاحب ترنگ زئی کا ہے ‘جنہوں نے محدود وسائل کیساتھ بے جگری سے برطانوی راج کی طاقت کا مقابلہ کیا تھا۔حاجی صاحب کی شخصیت کا ایک اہم پہلو برطانوی راج کے خلاف ان کی تعلیمی مزاحمت ہے‘ جس نے موثر انداز میں پختون ثقافت کومتاثر کیا اور لوگوں کے دلوں میں بدیسی حکمرانوں کے خلاف ردِعمل پیدا کیا۔ اس تعلیمی مزاحمت کی حدت جلد ہی برطانیہ تک محسوس کی جانے لگی ۔ حاجی صاحب ترنگ زئی کے تعلیمی پراجیکٹ میں کیا خاص بات تھی؟ برطانیہ ان مدرسوں سے اس قدر خائف کیوں تھا؟ ان سب باتوں کے ادراک کے لئے پختونخوا اور حاجی صاحب ترنگ زئی کو پورے پس منظر کے ساتھ سمجھنا ہوگا۔
پختونخوا ہمیشہ سے برطانیہ کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج تھا‘ کسی بھی متوقع بغاوت سے نمٹنے کے لئے فرنٹئیرکرائمز ریگولیشن پاس کیا گیا تھا‘ تاکہ کسی بھی موقع پر پختونوں کو کارروائی کا موقع نہ مل سکے۔
مقامی حالات سماجی اصلاحات کے متقاضی تھے۔تعلیمی مواقع نہ ہونے کے برابر تھے۔ برطانوی راج کی سرپرستی میں عیسائی مشنری بھرپور سرگرم تھے‘ تاکہ غریبوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر انہیں عیسائیت کی طرف راغب کیا جائے۔ ان سارے حالات میں حاجی ترنگ زئی کا کردار انتہائی منفرد تھا ۔ وہ اس بات کے داعی تھے کہ معاشرتی تبدیلی کے لئے کلیاتی سوچ ہی مؤثر ہوگی‘ وہ اس بات پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ مقامی لوگوں میں سماجی و معاشی آگاہی صرف تعلیم کے ذریعے ہی ممکن ہے اور تعلیم ہی ایسا ذریعہ ہے‘ جو لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپاکرکے انہیں غلامی کے طوق سے نجات دلا سکتا ہے۔ حاجی صاحب ترنگ زئی کا حقیقی نام فضل واحد تھا ۔ وہ 1859ء کو چارسدہ کے ترنگزئی گائوں
میں ایک سید گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا سید رستم شاہ بھی راج کے سخت خلاف تھے اور سید احمد شاہ شہید کو پختونخوا آمد کے دوران انہوں نے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی۔ انہوں نے پختونخوا کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے پختونوں کی معاشرتی اصلاح کا خواب دیکھنا شروع کردیا تھا۔ مذہبی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ گائوں واپس آگئے اور وہیں قیام پذیر ہوگئے۔ ان کی زندگی کا ایک اہم موڑ دارالعلوم دیوبند کا دورہ تھا‘ جہاں کے طلبہ نے ان کو بہت متاثر کیا۔
میں ایک سید گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا سید رستم شاہ بھی راج کے سخت خلاف تھے اور سید احمد شاہ شہید کو پختونخوا آمد کے دوران انہوں نے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی۔ انہوں نے پختونخوا کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے پختونوں کی معاشرتی اصلاح کا خواب دیکھنا شروع کردیا تھا۔ مذہبی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ گائوں واپس آگئے اور وہیں قیام پذیر ہوگئے۔ ان کی زندگی کا ایک اہم موڑ دارالعلوم دیوبند کا دورہ تھا‘ جہاں کے طلبہ نے ان کو بہت متاثر کیا۔
یہاں آپ کی ملاقات شیخ الہند محمود الحسن صاحب سے ہوئی ‘جو کہ دیوبند کے مدرسے میں ایک نوجوان اور متحرک استاد تھے۔حاجی صاحب کی دیوبند کے رہنمائوں کے ساتھ یہ ملاقات ایک طویل ترین دوستی پر منتج ہوئی اور انہوں نے حج پر جانے کا فیصلہ کیا‘ جس کے کاررواں کی قیادت مولانا نانوتوی کررہے تھے۔شاید یہ دیوبند کے ساتھ تعلق کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے پختونخوا میں مدرسہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا دراصلیہ وہی حکمت عملی تھی‘ جس کا آغاز دیوبند کے رہنمائوں نے اس وقت کیا تھا جب انہوں نے برطانوی راج کے خلاف مزاحمت کے لئے دارالعلوم دیوبند قائم کیا تھا۔ مدرسہ کا ایک رہنما اصول یہ تھا کہ برطانیہ سے کسی قسم کی مالی اعانت قبول نہیں کی جائے‘ تاکہ مدرسہ اپنی آزادنہ حیثیت برقرار رکھ سکے۔حاجی صاحب ترنگ زئی بھی ایسا ہی مدرسہ قائم کرنا چاہتے تھے ‘جو کہ اپنی پالیسی میں آزادہو اور ہندوستان کی آزادی میں اپنا کردار ادا کرسکے۔ حاجی صاحب ترنگ زئی نے اپنے مدرسے کا نام''آزاد مدرسہ‘‘رکھنے کا فیصلہ کیا۔ فارسی میں آزادی کا مطلب کسی بیرونی اثر سے مبرا ہونا اور مکمل خودمختاری کی حالت میں ہونا ہے۔ یوں مدرسہ کا نام ہی اس کے ویژن اور مشن کا غماز تھا۔ مدرسہ کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصدپختون معاشرے کی اصلاح تھا۔
حاجی صاحب پختون ثقافت میں خاندانی تنازعات اور فضول خرچیوں کے سخت خلاف تھے۔ معاشرتی تبدیلی کے خواب کی تکمیل کے لئے انہوں نے مختلف دیہاتوں کے دورے کئے ۔ ان کی کرشماتی شخصیت کے باعث لوگ ان سے فوراً متاثر ہوجاتے تھے‘ اسی وجہ سے لوگوں کی کثیر تعداد ان کی طرف راغب ہوگئی۔ سماجی مہارتوں میں مطلوبہ تبدیلیوں کے لئے وہ لوگوں سے مقامی زبان میں گفتگو کرتے تھے۔
حاجی صاحب ہندوستان کی برطانیہ سے آزادی کے لئے بہت سرگرم اور پرجوش
تھے۔ برطانوی راج مخالفانہ کارروائیوں کہ وجہ سے 1908ء میں ان کو گرفتار بھی کیا گیا۔ اپنی رہائی کے بعد اپنا سارا وقت آزاد مدرسوں کے قیام کے لئے وقف کردیا۔ ان مدرسوں کی تعداد کے متعلق کچھ غیر مصدقہ دعوے موجود ہیں‘ لیکن غالب امکان یہی ہے کہ اس علاقے میں اس وقت ایسے مدرسوں کی تعداد 35کے قریب تھی۔پشاور کے علاوہ یہ مدرسے زیادہ تر چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں قائم کئے گئے تھے۔
تھے۔ برطانوی راج مخالفانہ کارروائیوں کہ وجہ سے 1908ء میں ان کو گرفتار بھی کیا گیا۔ اپنی رہائی کے بعد اپنا سارا وقت آزاد مدرسوں کے قیام کے لئے وقف کردیا۔ ان مدرسوں کی تعداد کے متعلق کچھ غیر مصدقہ دعوے موجود ہیں‘ لیکن غالب امکان یہی ہے کہ اس علاقے میں اس وقت ایسے مدرسوں کی تعداد 35کے قریب تھی۔پشاور کے علاوہ یہ مدرسے زیادہ تر چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں قائم کئے گئے تھے۔
اتمان زئی کے مقام پر قائم مدرسہ نے طلبہ کی ایک کثیر تعداد کو اپنی طرف راغب کرلیا تھا۔ آزاد مدرسوں کا صدر مقام گدر کے مقام پر تھا جو کہ مردان‘ چارسدہ اور صوابی جیسے اہم ترین علاقوں کے قریب واقع تھا۔ کمزور مالی حالات اور وسائل کی کمی کے باعث یہ مدارس زیادہ تر مساجد میں قائم کئے گئے تھے۔ ان مدرسوں نے انتہائی خاموشی سے کام شروع کیا اور ان کے طلبہ کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ 1911ء اور1915ء کے عرصہ کے دوران یہ مدارس مقامی لوگوں میں خاصے مقبول ہوگئے۔ یہ مدرسے سائنسی بنیادوں پر چلائے جارہے ہیں۔پالیسی کے معاملات کو دیکھنے کے لئے علماء کی ایک مجلس شوریٰ تھی‘مردان سے تعلق رکھنے والے تاج محمد مدارس کے مہتمم تھے‘ جو کہ گریجویٹ تھے اور تعلیم کے عصری تقاضوں سے بخوبی آگاہ تھے۔ان مدارس میں طلبہ کے تعلیمی جائزے کا ایک منظم نظام موجود تھا۔مدارس کا باقاعدہ معائنہ ہوتا تھا اور حاجی صاحب ان کے معائنے کے لئے خود تشریف لے جاتے تھے۔ ان دوروں کے دوران وہ نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے طلبہ اور اساتذہ کو انعامات بھی دیتے تھے۔
ان مدارس کے زیادہ تر اساتذہ حاجی صاحب کے نظریاتی پیروکار تھے اور حاجی صاحب کی طرح ان کے اندر بھی بدیسی حکمرانی کے خلاف آزادی کی شمع روشن تھی۔ 1914ء کو جنگ ِ عظیم کے آغاز پر انگریزوں کے خلاف جذبات بھڑک اٹھے اور ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد مزید متحرک اور تیز ہوگئی۔حاجی صاحب کے انقلابی نظریات انگریزوں کی آنکھ سے اوجھل نہ رہ سکے‘ جو کہ آزادی کے لئے بلند ہونے والی کسی بھی آواز کو برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ صورت حال کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے حاجی صاحب قبائلی علاقوں کی طرف نقل مکانی کر گئے ۔ برطانوی حکمرانوںنے مدرسوں کو بند کردیا۔ حاجی صاحب کے وفادار اور معتمد اساتذہ کی کثیر تعداد روپوش ہوگئی اور بہت سے گرفتار کرلئے گئے۔ ان مدرسوں کے مالی معاونین کو گرفتار کرلیاگیا اور اکثر کی جائیدادیں ضبط کرلی گئیں۔
حاجی صاحب نے قبائلی علاقوں میں بھی دو مدارس قائم کئے‘ لیکن ان کا زیادہ تر وقت برطانیہ کے خلاف مسلح جدوجہد میں ہی گزرا۔ حاجی صاحب کی جدوجہد کا خاتمہ ان کی طبعی موت کے باعث ہوا‘لیکن ان کے آزادی کے پیغام نے بہت سے لوگوں کو متاثرکیا اور جنہوں نے ان کے نقش قدم پرچلتے ہوئے آزاد ملک کے خواب کی تعبیرمیں بھر پور کردار ادا کیا۔آج بھی حاجی صاحب کے مزار پر دورونزدیک سے مرد‘عورتیں‘ بچے اور بوڑھے جوق در جوق آتے ہیںاور اپنی عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔فرنگیوں کی حکومت ختم ہوئے ایک عرصہ بیت گیا اب یہاں ان کا کوئی نام لیوا نہیں‘ لیکن حاجی صاحب کی سلطنت اسی طرح قائم و دائم ہے۔ شایددنیا کی بادشاہی اور دلوں کی حکمرانی میں یہی فرق ہے۔ایک عارضی اقتدار کی ڈھلتی چھاؤں اور دوسری جذب و شوق کی ابدی کیفیت
Published in Dunya News:http://dunya.com.pk/index.php/author/shahid-siddique/2018-08-14/24226/40158194#tab2
حاجی صاحب ترنگزئی تحریک آزادی کے ایک بڑے مجاہد تھے. انہوں نے پختون مسلمانوں میں عقائد کی اصلاح اور علم کے حصول کا جذبہ بیدار کیا. آپ نے ان کی خدمات کو بہت اچھے انداز سے اجاگر کیا. جزاک اللہ
ReplyDeleteThank you.
Deleteحاجی صاحب کی نظریاتی جدوجہد اور آزاد مدرسہ سے آزاد ملک کے حصول تک برطانوی سامراج کے خلاف تعلیمی مزاحمت کی شاندار داستان۔ تاریخ کے طلبہ کی خصوصًا اور عمومی قاری کی بالعموم دلچسپی کو ایڈریس کرتی عمدہ تحریر۔
ReplyDeleteThanks Fauzia
Deleteہمارا المیہ ہی یہ ہے کہ اپنی تاریخ اور ہیروز کو بھلا کر اندھا دھند غیروں کی پیروی کر رہے ہیں اور شدید احساس کمتری کا شکار ہیں ۔استعماریت کا موثر ترین ہتھیار ہے کہ کسی قوم کو غلام بنانے کے لئے اسکی تاریخ اور ماضی مسخ کر دو اسکی شناخت چھین لو تا کہ وہ خود پر ہی شرمندہ ہو اور بے مقصد زندگی گزارے ۔۔۔ آج ہمیں بھی ضرورت ہے کہ ہمارے سامنے ہماری تاریخ دہرائی جائے ہمارے ہیروز سے ہمارا تعارف کرایا جائے اور گمشدہ شناخت سے ہمارا تعلق دوبارہ جوڑا جائے ۔۔۔ آپ کی یہ کاوش عظیم ہے اور کسی جہاد سے کم نہیں ۔۔۔
ReplyDeleteشکریہ سائرہ
DeleteVery informative
ReplyDeleteThanks. pl write ur name with ur comment. thanks.
Deleteحاجی صاحب کی خدمات گراں قدر ہیں۔ آزادی کے لۓ کوشش کرنے والے ہمارے ہیرو ہیں جو ہماری تاریخ کا روشن پہلو ہیں، ان کا ذکر ضروری ہے اور ہم ایسے لوگوں کو بُھلاتے جا رہے ہیں۔بہت اعلیٰ تحریر۔
ReplyDeleteHaleema sadia
شکریہ حلیمہ
DeleteA well researched article. Again thanks for creating awareness about our courageous and vibrant ancestors.
ReplyDeleteThanks:)
Delete