Education, Development, and Change
Email Dr. Shahid Siddiqui

Sunday, March 15, 2020

عجیب داستاں ہے یہ


عجیب داستاں ہے یہ

شاہد صدیقی
کہتے ہیں زندگی اتفاقات کا کھیل ہے۔ چلتے چلتے کسی موڑ پر کوئی حیرت ہماری منتظر ہوتی ہے۔ کبھی اس حیرت کا مرکز کوئی منظر ہوتا ہے، کبھی کوئی چہرہ، کبھی کوئی واقعہ اور کبھی کوئی مشاہدہ۔ مجھے یاد ہے ایک بار میں اور راج مانچسٹر کے وٹ ورتھ پارک میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس روز اتفاق سے دھوپ چمک رہی تھی اور پارک میں لوگوں کی آمدورفت جاری تھی۔ ہم حیرت کے حوالے سے گفتگو کر رہے تھے۔ راج نے کہا تھا: حیرت زندگی کا حسن ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو زندگی کی یکسانیت ہمیں مار ڈالے۔ اسی لیے تو رومی نے کہا تھا کہ وہ اپنا سارا علم بچے کی آنکھ میں حیرت کے بدلے میں دینے کو تیار ہے۔
 راج یونیورسٹی آف مانچسٹر میں سوشیالوجی کا پروفیسر تھا۔ ان دنوں میں بھی مانچسٹر یونیورسٹی سے انگلش میں ایم اے کر رہا تھا۔ راج سوشل تھیوری پڑھاتا تھا اور اپنے مضمون کا گرو تھا۔ اس کا شمار
یونیورسٹی کے مقبول پروفیسرز میں ہوتا تھا۔ اس کا تعلق جنوبی ہندوستان سے تھا۔ وہ پی ایچ ڈی کے لیے یہاںآیا تھا اور پھر یہیں کا ہو کر رہ گیا تھا۔ وہ مجھ سے عمر میں کچھ بڑا تھا لیکن ہم بہت جلد دوست بن گئے تھے۔ ہم میں قدرِ مشترک سوشل تھیوری سے دلچسپی تھی۔ میں اکثر اس کے گھر چلا جاتا جہاں ہم دنیا جہان کی گفتگو کرتے۔ راج کا مضمون تو سوشیالوجی تھا لیکن اس کا مطالعہ اتنا وسیع تھا کہ وہ ادب فلسفے، نفسیات، تصوف اور سیاسیات پر بھی روانی سے گفتگو کر سکتا تھا۔ راج نے شادی نہیں کی تھی اور وہ مانچسٹر کے مضافات میں ایک چھوٹے سے گھر میں اکیلا رہتا تھا جس میں ہر طرف کتابیں بکھری ہوتی تھیں۔ اس کے سائیڈ ٹیبل پر ایک فریم میں ایک لڑکی کی تصویر رکھی تھی جس کے ماتھے پر سیاہ رنگ کی بندیا تھی، جس کی آنکھیں مسکرا رہی تھیں اور جس کا نام پاروتی تھا۔ میں جب بھی اس تصویر کے بارے میں پوچھتا راج ٹال جاتا لیکن میرے پاکستان آنے سے کچھ روز پہلے اس نے مجھے بتایا کہ یہ تصویر پاروتی کی ہے۔ پاروتی دہلی کے ایک کالج میں راج سے جونیئر تھی۔ ان کی ملاقات بھی اچانک ہوئی تھی جب ایک دن کالج کے کیفے ٹیریا میں اچانک وہ راج کی سامنے والی کرسی پر آ بیٹھی تھی اور اس سے پوچھا تھا کہ وہ تھیسز میں اس کی مدد کرے گا؟ راج نے نظریں اٹھا کر پاروتی کی آنکھوں میں دیکھا تو اسے یوں لگا جیسے گہر ے سمندر میں ڈوب رہا تھا۔ اس نے فوراً ہامی بھرلی اور اپنی پڑھائی اور سب کچھ بھول کر پاروتی کے تھیسز پر کام کرنے لگا اور پھر وہ دن آ گیا جب پاروتی کا ڈیفنس تھا۔ اس نے وعدہ کیا تھا کہ اپنی کامیابی کی خبر سب سے پہلے راج کو دے گی۔ اس روز راج سارا دن انتظار کرتا رہا لیکن پاروتی نہ آئی اور اگلے روز پتہ چلا کہ وہ دو مہینوں کے لیے شملہ چلی گئی ہے۔ اسی دوران راج کی پی ایچ ڈی کا سکالرشپ آ گیا اور وہ مانچسٹر چلا آیا۔ پی ایچ ڈی کے بعد اسے یہاں نوکری مل گئی اور وہ یہیں کا ہو کر رہ گیا۔ ہندوستان سے اس کا رابطہ کٹ گیا تھا۔ لیکن اس کے سائیڈ ٹیبل پر اس کے ماضی کی ایک نشانی پاروتی کی تصویر موجود تھی۔ وہ ہر روز اس فریم کو کپڑے سے صاف کرتا‘ ان ہنستی ہوئی آنکھوں کو دیکھتا اور دل میں سوچتا‘ پاروتی نے ایسا کیوں کیا۔ میں اپنا کورس ختم ہونے پر پاکستان آ گیا۔ کچھ عرصہ پروفیسر راج سے رابطہ رہا۔ پھر کئی سال گزر گئے۔ میں نے ٹیلی فون کی کوشش کی لیکن شاید اس کا فون نمبر بدل گیا تھا۔ کئی خط لکھے لیکن پتہ چلا کہ وہ پراناگھر چھوڑ گیا ہے۔ یونیورسٹی سے پتہ چلا کہ وہ ریٹائر ہو گیا ہے۔ سوچا‘ شاید اب میں راج سے کبھی نہ مل پائوں۔ میں نے اتنا وسیع المطالعہ شخص اپنی زندگی میں نہیں دیکھا تھا۔ وہ اپنے طالب علموں کے دلوں میں بستا تھا۔ اب بھی کبھی کبھار راج کا خیال آتا ہے تو اس کا سانولا چہرہ میری نظروں کے سامنے آ جاتا ہے۔ بڑی بڑی روشن آنکھیں اور ان میں بے نام سی اداسی کی ایک لہر۔ آج بھی گوا میں ساحلِ سمندر پر میں نے راج کو یاد کیا۔ میرے سامنے بحیرہ عرب کے پانیوں کا لامتناہی سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔ ہم پانچ روز پہلے گوا پہنچے تھے۔ گوا کا بھارت کی ریاستوں میں ایک الگ مقام ہے۔ یہ علاقہ 1961 تک پرتگال کی ایک کالونی رہا۔ یہاں کی عمارتوں میں پرتگالی طرزِ تعمیر کی جھلک نظر آتی ہے۔ یہ ہندوستان کی امیر ترین ریاست ہے‘ جہاں دنیا بھر سے ٹورسٹ آتے ہیں۔ پرانے گرجا گھر اور عبادت گاہیں یہاں کی پہچان ہیں۔ ہماری ورکشاپ جس ہوٹل میں ہے‘ وہ 20 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کے بالکل قریب ساحل سمندر ہے جہاں ہر طرف سفید رنگ کی ریت ہے۔ دن بھر سیشنز اٹینڈ کرنے کے بعد میں یہاں آتا ہوں اور اپنے سامنے تاحدِ نظر پھیلے سمندر کو دیکھتا رہتا ہوں۔ آج گوا میں میرے قیام کا آخری دن ہے۔ میں ہمیشہ کی طرح ورکشاپ کے سیشنز اٹینڈ کرکے یہاں آ گیا ہوں۔ میرے اردگرد سفید رنگ کی ریت ہے اور سامنے سمندر کے پانیوں کی تہہ در تہہ لہریں۔ یہ نومبر کا مہینہ ہے اور اس مہینے میں یہاں کا موسم بہت خوشگوار ہوتا ہے۔ چاروں طرف روشن دھوپ پھیلی ہوئی ہے۔ لوگ اپنی فیملیز کے ساتھ آئے ہوئے ہیں۔ ہلکی ہلکی فرحت بخش دھوپ اور سمندر کی دلربا ہوا سے میری آنکھیں بند ہونے لگتی ہیں۔ میرے اردگرد لوگوں کی آمدورفت جاری ہے۔ والدین اپنے
بچوں کو سمندر کے قریب جانے سے روک رہے ہیں۔ لہریں آتی ہیں اور ساحل کے قریب آ کر دم توڑ دیتی ہیں۔ میں نیند اور بیداری کے درمیان کی کیفیت میں ہوں۔ اچانک ایک مانوس گیت کی آواز مجھے حال کی دنیا میں لے آتی ہے:
عجیب داستاں ہے یہ کہاں شروع کہاں ختم
یہ منزلیں ہیں کون سی نہ وہ سمجھ سکے نہ ہم
میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ میرے بائیں ہاتھ کوئی فیملی دائرے میں ایک چٹائی پر بیٹھی تھی۔ خاتون نے اپنا موبائل درمیان میں رکھا ہوا تھا جس پر و ہ پرانے گیت سن رہے تھے۔ پھر بچے اپنے باپ کے ہمراہ سمندر کی لہروں کو قریب سے دیکھنے چلے گئے تو بچوں کی ماں نے پیچھے سے آواز دی ''زیادہ آگے مت جانا‘‘۔ اس عورت نے میری طرف دیکھا تو میں نے کہا ''کیسا خوبصورت گیت ہے‘‘۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا ''ہاں ہمارے بچے تو انگریزی میوزک پسند کرتے ہیں لیکن میں پرانے زمانے کی ہوں‘‘ پھر اس نے مجھ سے پوچھا میرا تعلق کہاں سے ہے۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا ''میں پاکستان سے ہوں‘ میرا شہر راولپنڈی ہے اور راولپنڈی شیلندر کا شہر بھی تھا‘ جس نے آپ کا یہ پسندیدہ گیت لکھا ہے‘‘۔ وہ ہنستے ہوئے بولی''اچھا؟ کتنے عرصے سے میں یہ گیت سن رہی ہوں‘ شاعر کا نام آج پتہ چلا اور یہ تو میرے لیے خبر ہے کہ شیلندر کا تعلق راولپنڈی سے تھا‘‘ میں نے دیکھا ہنستے ہوئے اس کے گالوں میں بھنور پڑ رہے تھے۔ اچانک مجھے راج کے کمرے میں سائیڈ ٹیبل پر پڑی ہنستی ہوئی آنکھوں والی لڑکی یاد آ گئی جس کے ماتھے پر سیاہ رنگ کی بندیا تھی‘ جس کے بال اس کے کندھوں پر گر رہے تھے اور جس کی آنکھیں ہنس رہی تھیں۔ اچانک اس نے پوچھا ''آپ کب تک ہیں ادھر؟‘‘
میں نے کہا‘ آج ہماری ورکشاپ کا آخری دن ہے اور کل پاکستان واپسی ہو گی۔ وہ خاموش ہو گئی۔ اچانک بادلوں کی گرج نے مجھے چونکا دیا۔ یکلخت تیز ہوائیں چلنا شروع ہو گئی تھیں۔ اب ہر طرف ریت اُڑ رہی تھی۔ بارش کا آغاز ہونے والا تھا۔ لوگ جلدی جلدی اپنا سامان سمیٹ رہے تھے۔ اس سے پہلے کہ اسے خدا حافظ کہتا‘ میں نے دیکھا اس کے بچے دوڑتے ہوئے اس سے لپٹ گئے تھے۔ ان کے پیچھے اس کا شوہر تھا۔ اس کی سانس پھولی ہوئی تھی۔ قریب آتے ہی وہ بولا: چلو پاروتی جلدی کرو تیز بارش شروع ہونے سے یہاں سے نکل چلیں۔ وہ تیزی سے اٹھ کر جانے لگے۔ جاتے ہوئے اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو مجھے یوں لگا راج کے گھر میں سائیڈ ٹیبل پر پڑے فریم کی لڑکی زندہ ہو گئی ہے۔ ماتھے پر وہی سیاہ رنگ کی بندیا، مسکراتی ہوئی آنکھیں اور ہنستے ہوئے گالوں پر پڑتے بھنور۔ کہتے ہیں زندگی اتفاقات کا کھیل ہے۔ چلتے چلتے کسی موڑ پر کوئی حیرت ہماری منتظر ہوتی ہے۔ کبھی اس حیرت کا مرکز کوئی منظر ہوتا ہے، کبھی کوئی چہرہ، کبھی کوئی واقعہ اور کبھی کوئی مشاہدہ

No comments:

Post a Comment