Education, Development, and Change
Email Dr. Shahid Siddiqui

Monday, January 20, 2020

لودھراں، منیر نیازی اور پروین شاکر

لودھراں، منیر نیازی اور پروین شاکر

شاہد صدیقی
یہ80 کی دہائی کا آخر آخر تھا‘ دسمبر کا خنک مہینہ تھا جب مجھے تربیتِ اساتذہ کے ایک پروگرام میں بطورِ ریسورس پرسن ملتان جانا پڑا۔ اسی سال میں یونیورسٹی آف مانچسٹر سے تدریس انگریزی میں ڈگری لے کر واپس آیا تھا اور ہر نئے گریجویٹ کی طرح میرے اندر بھی ایک مثبت بے قراری تھی، کچھ کر گزرنے کی خواہش تھی۔ ملتان سردیوں کے دنوں میں کچھ معتدل ہو جاتا ہے۔ پروگرام کے شرکا وہیں کے اساتذہ تھے۔ پروگرام میں میرے دو سیشنز تھے‘ جو سہ پہر تک مکمل ہو گئے۔ یہ 1987 کا ملتان تھا۔ اس وقت زندگی کی رفتار اتنی تیز نہیں ہوئی تھی۔ مجھے اگلے روز شام کو واپس اسلام آباد جانا تھا۔ ایسے میں مبارک مجوکا نے کہا ''ایک آئیڈیا ہے ہو سکتا ہے آپ کو پسند آ جائے۔ مبارک مجوکا سے میرا پہلا تعارف لاہور میں ہوا تھا۔ وہ انگریزی ادب کا طالب علم تھا اور کتابوں کا رسیا۔ ہر دم متحرک رہنے والا مبارک مجوکا اب اس دنیا میں نہیں رہا لیکن یہ تب کی بات ہے جب انسان سمجھتا ہے کہ وہ اپنے راستے میں آنے والے پہاڑوں کو بھی الٹا سکتا ہے۔ میں مجوکا کا آئیڈیا سننے کیلئے بے چین تھا۔ وہ بولا: آپ چاہیں تو ہم ایک شاندار مشاعرے میں شرکت کر سکتے ہیں‘ مشاعرہ یہاں سے تقریباً 70 کلومیٹر دور لودھراں میں ہے اور اس میں پاکستان کے ممتاز شاعر شرکت کر رہے ہیں۔ میری آنکھوں میں چمک دیکھ کر وہ بولا: تو پھر ٹھیک ہے ہم شیزان ہوٹل چلتے ہیں‘ وہیں لاہور سے آنے والے شاعروں سے ملاقات ہو گی‘
چائے پی کر اور کچھ دیر سستا کر وین میں لودھراں جائیں گے۔
شیزان ہوٹل کچہری کے پاس واقع تھا۔ اب اس کا نام بدل کر شیزا اِن کر دیا گیا ہے۔ اندر داخل ہوئے تو کئی شرکا پر نظر پڑی۔ اتفاق سے ہم جس میز پر بیٹھے معروف شاعر سلیم کوثر بھی وہیں بیٹھے تھے۔ ان سے ان کی مشہور غزل کے پس منظر پر بات ہوئی۔ بہت کم غزلیں ایسی ہوتی ہیں جن کا ہر شعر قبول عام حاصل کرتا ہے۔ سلیم کوثر کی یہ غزل بھی اسی صف میں آتی ہے جس کا مطلع تھا:
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سرِ آئینہ میرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے
پھر اعلان ہوا کہ سب اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھ جائیں۔ خوش قسمتی سے ہم اس وین میں تھے جس میں عطاالحق قاسمی اور امجد اسلام امجد تھے۔ جہاں یہ دونوں اکٹھے ہوں تو لطیفوں اور باتوں کی پھلجھڑیاں چلتی رہتی ہیں۔ خوشونت سنگھ کی طرح اگر یہ دو حضرات لطائف شائع کرائیں تو کئی مجموعے بن سکتے ہیں۔ ملتان سے لودھراں کا سفر تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کا ہو گا۔ لودھراں قصبے کی ایک خاص اہمیت اس کا جغرافیائی محل وقوع ہے۔ اب تو لودھراں ضلع بن گیا ہے‘ اُن دنوں ملتان کے ضلع کا ایک حصہ ہوا کرتا تھا۔ یہ دریائے ستلج کے شمال میں واقع ہے۔ ستلج پانچ دریائوں میں طویل ترین دریا ہے۔ اس وقت تک میری سرائیکی کے معروف شاعر رفعت عباس سے شناسائی نہیں ہوئی تھی ورنہ میں اس سے اس علاقے کے جغرافیائی‘ ثقافتی، لسانی اور معاشرتی حالات کے بارے میں ضرور دریافت کرتا کیونکہ یہ اس کا میدان ہے۔ پھر وہ مجھے بتاتا کہ لودھراں کا نام لودھراں کیوں ہے اور ستلج کو رگ وید میں ستادری کیوں کہتے ہیں۔ ڈیڑھ پونے دو گھنٹے کی مسافت کا پتہ ہی نہیں چلا اور اس کا سارا کریڈٹ عطاالحق قاسمی اور امجد اسلام امجد کو
جاتا ہے‘ جن کی دلچسپ گفتگو میں وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔
ایک بڑے پنڈال میں مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ یہ مشاعرہ سول کلب لودھراں کے زیرِ اہتمام منعقد ہو رہا تھا جس کے صدر حفیظ خان تھے‘ جو اس وقت وہاں سول جج تعینات تھے۔ یہ وہی حفیظ خان ہیں جنہوں نے بعد میں ایک معروف ادیب، ناول نگار اور نقاد کی حیثیت سے اپنی شناخت بنائی۔ مبارک مجوکا ایک اچھے میزبان کی طرح ہر مرحلے میں میری مدد کر رہے تھے۔ انہوں نے مجھے پہلی قطار میں لے جا کر بیٹھا دیا۔ یہ لودھراں کی تاریخ کا پہلا کل پاکستان مشاعرہ تھا۔ یہ ہر لحاظ سے ایک شاندار مشاعرہ تھا جس کی نظامت کے فرائض پروین شاکر انجام دے رہی تھیں۔ اس وقت تک پروین کی صرف ایک کتاب 'خوشبو‘ منظر عام پر آئی تھی۔ یہ اردو غزل میں بالکل نیا لہجہ تھا۔ اس روز مشاعرے میں پروین نے اپنی مقبول غزل سنائی جس کا مطلع تھا:
کوبکو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
جب اس نے یہ شعر پڑھا تو نجانے مجھے کیوں لگا یہ اس کے ذاتی دکھ کی داستان ہے:
کیسے بتلائوں کہ وہ چھوڑ گیا ہے مجھ کو
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
یہ تین دہائیاں پہلے کی بات ہے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے مشاعرے میں منیر نیازی، سلیم کوثر، امجد اسلام امجد اور قاسمی نے مہمان شعرا کے طور پر شرکت کی تھی۔ مقامی شعرا نے بھی مشاعرے میں اپنا کلام سنا کر اور سن کر داد پائی تھی۔ تقریباً سات سال بعد جب مجھے پروین شاکر کی ایک حادثے میں اچانک موت کی اطلاع ملی تو میں پی ایچ ڈی کے سلسلے میں ٹورنٹو میں تھا۔ اس وقت اس کی عمر صرف 42 سال تھی۔ اس کم عمری میں اس نے دنیاوی کامیابیوں کے بلند ترین زینے طے کر لیے تھے‘ لیکن ایک اداسی تھی جوہمہ وقت اس کے دامن گیر رہتی تھی اور اس کی آنکھوں سے جھلکتی تھی۔
منیر نیازی کی باری آنے تک رات بھیگ چکی تھی لیکن ہم سب ان کا کلام سننے کے منتظر تھے۔ اس روز منیر نیازی نے دو تین نظمیں سنائیں جس میں ''ہر مُکھ پر خوبصورتی کا مقام‘‘ ''اور ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں‘‘ بھی شامل تھیں۔ منیر نیازی کی شاعری کی پراسراریت اس کے شعر پڑھنے کے انداز سے دوچند ہو جاتی‘ وہ شعر پڑھتے پڑھتے بھول جاتا اور خلا میں کسی غیر مرئی نقطے کو دیکھنا شروع کر دیتا۔
جب مشاعرہ ختم ہوا تو صبح کاذب کے آثار نمایاں ہو رہے تھے۔ ہم ملتان پہنچے تو صبح ہو چکی تھی۔ اسی شام مجھے ملتان سے اسلام آباد آنا تھا۔ مقررہ وقت سے پہلے میں ائیرپورٹ پہنچ گیا۔ چیک ان کے بعد لائونج میں بیٹھ کر میں نے بیگ سے کتاب نکالی اور پڑھنے لگا۔ ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ کوئی میرے سامنے والے صوفے پر آ کر بیٹھا۔ میں نے غیر ارادی طور پر نظر اٹھا کے دیکھا تو میرے سامنے منیر نیازی بیٹھ رہے تھے۔ انہوں نے مسکرا کر مجھے دیکھا۔ حوصلہ پا کر میں نے انہیں بتایا کہ میں ان کی شاعری کا رسیا ہوں اور نجانے کب سے ایک سوال لے کر گھوم رہا ہوں۔ منیر نیازی نے مسکراتے ہوئے کہا: کیا سوال ہے؟ میں نے کہا Walter de La Mare کی ایک نظم ہے: The Listeners‘ اس کی فضا بہت پُراسرار اور انوکھی ہے‘ پھر میں نے آپ کی ایک نظم پڑھی ''صدا بہ صحرا‘‘... یہ سن کر منیر نیازی نے خلا میں گھورنا شروع کر دیا۔ میں نے کہا: یہ نظم کچھ یوں ہے:
چاروں سمت اندھیرا گھپ ہے، اور گھٹا گھنگھور
وہ کہتی ہے کون
میں کہتا ہوں میں
کھولو یہ بھاری دروازہ
مجھ کو اندر آنے دو
اس کے بعد اک لمبی چُپ اور تیز ہوا کا شور
دونوں نظموں میں ایک خاص طرح کی مماثلت ہے۔ منیر نیازی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اور گہری ہو گئی۔ مجھے کہنے لگے: یار یہ سوال اشفاق احمد نے بھی مجھ سے پوچھا تھا‘ اب میں گھر جا کر دیکھتا ہوں یہ Walter de La Mare کون ہے۔ اس پر ہم دونوں ہنسنے لگے۔ آج اس بات کو گزرے تیس سال سے اوپر ہونے کو آئے ہیں اس دوران پروین شاکر اور منیر نیازی اجل کی وادی میں اتر گئے لیکن میں اب بھی تنہائی میں آنکھیں بند کروں تو ان کی آوازوں کو سن سکتا ہوں۔ اور پھر ان آوازوں کے ساتھ جڑے ہوئے وہ سارے منظر روشن ہو جاتے ہیں جنہیں بیتے ہوئے تین دہائیاں گزر گئیں۔

2 comments:


  1. بہت عمدہ یاداشت۔ پروین شاکر اور منیر نیازی کو بہترین خراج عقیدت

    ReplyDelete
  2. بہت بڑے لوگ تھے جن کی یادیں آپ کی تحریر سے تازہ ہو گئیں. مشاعرے اور اس کے لئے سفر کی روداد دلچسپ انداز سے پیش کی ہے خوشونت سنگھ کا حوالہ بھی خوب ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سفر بہت اچھے ماحول میں طے ہوا تھا.

    ReplyDelete