Education, Development, and Change
Email Dr. Shahid Siddiqui

Tuesday, August 20, 2019

ہڑپہ: یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں

نقاہت اور بلا کا حسن ار آنکھوں کی

ہڑپہ: یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں

شاہد صدیقی
اُس روز دُور دُور تک اُجلی دھوپ کا بسیرا تھا اور ہوا میں ہلکی خنکی کی آمیزش۔ میری منزل ساہیوال سے 27 کلومیٹر دور ہڑپہ تھی۔ ایک اندازے کے مطابق ساڑھے تین ہزار سال قبل مسیح اس تہذیب کا آغاز ہوا تھا۔ پرانی جگہوں پہ جانے کا بھی اپنا رومانس ہے۔ کبھی کبھی ان خرابوں میں خزانے مِل جاتے ہیں۔ ساہیوال سے ہڑپہ کے راستے میں ایک نوجوان بھی میرے ہمراہ ہو لیا، اس نے بتایا کہ وہ ہڑپہ کا باسی ہے۔ وہیں پیدا ہوا اور پلا بڑھا۔ اس نے اپنا نام ناصر بتایا۔ کھنڈرات کے حوالے سے اس کے پاس کافی معلومات تھیں‘ یوں ہڑپہ تک کا سفر بخوبی کٹ گیا۔ میوزیم کے کیوریٹر حسن کو ہماری آمد کی اطلاح تھی۔ حسن کئی سال سے میوزیم میں اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔
حسن نے بتایا کہ ہڑپہ میوزیم کا آغاز 1926ء میں ہوا۔ اس وقت یہاں کھنڈرات سے نکلنے والے کچھ نوادرات رکھے گئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد1967ء میں میوزیم کو موجودہ جگہ پر منتقل کیا گیا۔ میوزیم میں کھنڈرات سے نکلے ہوئے بہت سے ایسے آثار ہیں جن کی مدد سے ہڑپہ کی تہذیب کے بارے میں پتا چلتا ہے۔ میوزیم میں اس زمانے کی مہریں ہیں جن پر نقش و نگار ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس وقت ایک خاص طرح کا سکرپٹ استعمال ہوتا تھا۔ مختلف اوزان کے پتھر ان لوگوں کی تجارتی سرگرمیوں کا پتا دیتے ہیں۔ اسی طرح عورتوں کے پہننے کے زیورات رکھے ہیں جن میں منکوں کے ہار بھی شامل ہیں۔ زرعی آلات اس وقت کی زرعی سرگرمیوں کا احوال بتاتے ہیں۔ پتھروں اور بھالوں کی موجودگی باہمی آویزشوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ میوزیم کے ایک حصے میں دو انسانی ڈھانچے رکھے ہیں۔ جن سے معلوم ہوتا ہے اس وقت بھی عام انسانی قد و قامت کے لوگ پائے جاتے تھے۔
میوزیم سے نکل کر ہم دائیں طرف کے راستے پر چلنے لگے۔ حسن اور ناصر میرے ہمراہ چل رہے تھے۔ دونوں ان کھنڈرات کے دلدادہ تھے۔ حسن نے بتانا شروع کیا کہ اس وقت کھنڈرات جس شکل میں ہیں‘ اس کے پیچھے بہت سے لوگوںکی محنت ہے۔سب سے پہلے 1826ء میںایک برٹش آرمی افسر چارلس میسن نے یہاںکا دورہ کیا اور اپنے سفر نامے میں اس کا احوال لکھا۔ آثارِ قدیمہ کے ماہر الیگزنڈر کنگھم نے 1853ء اور 1856ء میں یہاں کا دورہ کیا۔
آثارِ قدیمہ کی اس قیمتی جگہ کو اُس وقت بُری طرح نقصان پہنچا جب برطانوی دورحکومت میں لاہور تا ملتان ریلوے لائن بچھانے کے لیے یہاں سے لی گئی اینٹوںکا استعمال کیا گیا۔ اس کے علاوہ مقامی باشندوں نے بھی یہاں سے اینٹیں لے کر اپنے گھروں کی تعمیر میں استعمال کیا۔ 1920ء میں اس جگہ کو محفوظ علاقہ (Protection Site) قرار دیا گیا۔
پہلی باضابطہ کھدائی کا کام دیا رام ساھنی نے 1921ء سے 1925ء تک کیا۔ اس
کے بعد شاستری (1937)، دیلر (1944-1946)، محمد رفیق مغل(1966)، ڈاکٹر مغل، محمد حسن (1992)، ڈاکٹر جارج ڈیلز اور ڈاکٹر مارک (1986-1999) کی زیرنگرانی کھدائی کا کام ہوا۔
چلتے چلتے ہم ایک بلند مقام پر پہنچ گئے جہاں سے دیکھا تو شہرِ برباد کے آثار ہمارے سامنے تھے۔ میں نے نشیب میں کھنڈرات پر نگاہ ڈالی۔ گھروں کے ساتھ گلیاں، پتھروں اور سلوں سے ڈھکی ہوئی نالیاں، اناج جمع کرنے کے برتن، پانی کے کنویں۔ شہر کے گردا گرد شہرِ پناہ کی فصیل ہے جس کی چوڑائی 14 میٹر کے لگ بھگ ہے۔ اس بیرونی فصیل میں کئی مقامات پر دروازے ہیں۔ مجھے یوں لگا جیسے شہر پھر سے جاگ اٹھا ہو۔ دکانیں کھلی ہوئی ہیں۔ گلیوں میں لوگوں کی چہل پہل ہے۔ کسان کھیتوں میں کاموں میں جُتے ہیں۔ مچھیرے اپنے جال لیے مچھلیوں کا شکار کر رہے ہیں۔ ہلکی خنک ہوا اجلی دھوپ میں گھل کر ہمارے چہروں کو مس کر رہی ہے۔ اب ہم بلند ٹیلے سے اُترکر نودریافتہ آثار کی طرف جا رہے ہیں۔ راستے میں ہمارے اردگرد مٹی کے ٹیلے ہیں۔ ذرا غور سے ان ٹیلوں کو دیکھیں تو کئی جگہوں سے انسانی ہڈیاں جھانکتی نظر آتی ہیں۔ ہم ایک بوسیدہ درخت کے قریب پہنچ کر رک جاتے ہیں۔ درخت کے نیچے بینچ پڑے ہیں‘ ہم تھوڑی دیر کے لیے وہاں بیٹھ جاتے ہیں۔ کچھ دیر سستا کر ہم دوسری سمت چلنے لگتے ہیں، میںحسن سے پوچھتا ہوں: میوزیم میں کیا نئی تبدیلیاں آئی ہیں؟ حسن کہتا ہے: سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ 345 کنال سے زائد کی زمین حاصل کر لی گئی ہے اور مقامی باشندوں کو رقوم کی ادائیگی بھی ہو گئی ہے۔ اسی طرح اس زمین کے اردگرد ایک دیوار تعمیر کی گئی ہے جس کی لمبائی16200 فٹ ہے اور انچائی ساڑھے سات فٹ ہے۔ فٹ پاتھ بھی نئے سرے سے تعمیر کئے گئے ہیں جن کی لمبا ئی ڈیڑھ کلومیٹر اور چوڑائی 7 1/2فٹ ہے۔ میوزیم میں آنے والے سیاحوں کے لیے پارکنگ بھی تعمیر کی گئی ہے۔ اسی طرح خوبصورت لان بنائے گئے ہیں اور سیاحوں کے لیے بھی سہولتوں کا اہتمام کیا گیا ہے۔ میوزیم کی گیلری میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔
ان سب اصلاحات میں حسن کا جذبہ اور محنت بھی کارفرما ہے۔ ہڑپہ کے کھنڈرات
اس کا عشق بن گئے ہیں، چلتے چلتے اب اہم ایک اور بلند مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں سے دیکھیں تو ہڑپہ کے گائوں کے گھر نظر آ رہے ہیں۔ یہاں پہنچ کر حسن نے ہم سے اجازت لی اور کہا: میں آپ کے لیے چائے کا بندوبست کرنے جا رہا ہوں، آپ پندرہ منٹ تک گیسٹ ہائوس پہنچ جائیں، ناصر آپ کے ساتھ رہے گا۔ یہ اس علاقے سے خوب واقف ہے۔ اب میں اور ناصر پتھروں پر بیٹھ جاتے ہیں۔ میں اس سے پوچھتا ہوں: حسن کا تو کام ہی ان کھنڈرات سے وابستہ ہے، تم یہاں کیوں بھٹکتے رہتے ہو؟ اس نے دور ایک ٹیلے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: نائن الیون سے پہلے یہاں آثارِ قدیمہ کے ماہرین آیا کرتے تھے‘ میں ان کا گائیڈ بن جاتا تھا۔ وہ میری طرف دیکھے بغیر اپنی دھن میں بولے جا رہا تھا۔ انہی میں ایک امریکی لڑکی لارا ملر تھی۔ جو ڈھانچوں پر تحقیق کے لیے آئی تھی، میں اس کا گائیڈ بن گیا۔ لارا ایک سیلانی روح تھی‘ اسے اپنے کام سے جنون کی حد تک محبت تھی۔ اس وقت میرے پاس ہونڈا موٹر سائیکل ہوا کرتی تھی‘ ہم گائوں گائوں میں پھرا کرتے، جانوروں کے ڈھانچے خریدتے، انہیں واپس لاتے جن پر تحقیق کی جاتی۔ مجھے یاد ہے ایک بار اس نے کہا دریا پار کے لوگوں کے رہن سہن کو دیکھنا ہے۔ ہم نے موٹر سائیکل کشتی میں رکھی اور دریا کے پار جا پہنچے۔ دریاکے پار موٹر سائیکل کے پہیے ریت میں دھنس گئے۔ اب لارا نے اتر کر موٹر سائیکل کو دھکا لگانا شروع کر دیا۔ وہ عجیب سی لڑکی تھی ایک روز مجھے کہنے لگی: مجھے میلہ دیکھنے جانا ہے، یہاں مارچ میں حضرت سخی سرور کا میلہ ہوا کرتا ہے۔ وہ شلوار قمیص پہن کر اور سر ڈھانپ کر میرے ساتھ میلے میں گئی۔ مجھے کہنے لگی: مجھے موت کا کنواں دیکھنا ہے، موت کا کنواں دیکھنے کے بعد اس نے میلے میں گھومنے والے فوٹو گرفر سے تصویر کھنچوائی۔ چوڑیاں بیچنے والی مقامی عورت کے سامنے بیٹھ کر چوڑیاں پہنیں۔ پھر کہنے لگی: مجھے چائے پینی ہے۔ میں نے کہا: تم کہیں بھیڑ میں کھو نہ جانا، میں ابھی آتا ہوں۔ میںچائے لے کر آیا تو میرا دِل دھک سے رہ گیا۔ وہ وہاں نہیں تھی‘ لوگوں کی نہ ختم ہونے والی بھیڑ تھی۔ میں دونوں ہاتھوںمیں چائے لے کر ہرطرف ڈھونڈتا رہا، اچانک میرے پیچھے سے اس کے ہنسنے کی آواز آئی۔ میں نے دیکھا اس کی آنکھوں میں بچوں جیسی معصومیت اور شرارت تھی۔ پھر وہ ایک دن اپنے ملک واپس چلی گئی۔ اچانک ناصر حال کی دنیا میں آ گیا۔ جیسے خواب سے جاگ گیا ہو۔ کہنے لگا: چلیں! حسن گیسٹ روم میں ہمارا انتظار کر رہا ہوگا۔ ہم اب واپس نشیبی راستے پر چلنے لگے‘ جو گیسٹ ہائوس کو جاتا تھا۔
اب بھی ہر سال ہڑپہ میں مارچ کی اٹھارہ تاریخ کو حضرت سخی سرور کا میلہ ہوتا ہے۔ ناصر باقاعدگی سے وہاں جاتا ہے‘ موت کا کنواں دیکھتا ہے۔ چائے کا کپ لے کر لوگوں کی بھیڑ میں بے چین گھومتا پھرتا ہے۔ کبھی کبھی اسے اچانک اپنے پیچھے ہنسی کی آواز سنائی دیتی ہے بالکل لارا کی ہنسی جیسی آواز۔
 دلگیری
عجب بیمار تھا جس نے مجھے بیمار کر ڈالا
-محمد اظہارالحق

7 comments:

  1. Beautifully narrated. I love the way you describe and narrate a story with full of colors and powerful imagination. 👍

    ReplyDelete
    Replies
    1. Thanks for your comments. please also write your name.

      Delete
  2. So romantic. A blend of history and Platonic love.

    ReplyDelete
  3. It's an interesting narrative based on picturesque recollections and with Nasir's story leaving a lot for imagination.

    ReplyDelete
  4. As I read your column as I make an imaginary world in my mind. I don't only read it but also start a journey of all places which you mention in your columns.

    ReplyDelete