Education, Development, and Change
Email Dr. Shahid Siddiqui

Wednesday, July 3, 2019

پُر تاثیر قیادت اور سخنِ دلنواز کی ساحری

پُر تاثیر قیادت اور سخنِ دلنواز کی ساحری

شاہد صدیقی
کاظم بیکس بانی ڈائیرکٹر آئی ای ڈی آغا خان یونیورسٹی 
کہتے ہیں محبت میں ماضی کا صیغہ ہوتا ہے‘ نہ ہی مستقبل کا۔ سارے زمانے ڈھل کر حال بن جاتے ہیں۔ وقت ایک لمحے میں رُک جاتا ہے اور پھر یہ لمحہ صدیوں پر محیط ہو جاتا ہے۔ اُردو کے جُداگانہ اسلوب کے شاعر خورشید رضوی کا کہنا ہے:
کب نکلتا ہے کوئی دل میں اُتر جانے کے بعد
اِس گلی کے دوسری جانب کوئی رستہ نہیں
کاظم بیکس (Kazim Bacchus) کامعاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ اُس کی دوستی کی گلی میں جو ایک بار داخل ہوتا‘ وہ ہمیشہ وہیں کا ہو کر رہ جاتا۔ کاظم کے ساتھ میرا رشتہ عقیدت کا تھا۔ میرا اور کاظم کا ساتھ تقریباً ایک سال رہا‘ لیکن اِس مختصر ساتھ نے میری شخصیت پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ کاظم کی قیادت کے مختلف رنگوں
کو اس دوران قریب سے دیکھنے کا موقع ملا جب میں آغا خان یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ IED)) میںکام کر رہا تھا۔ یہ ٹیچر ایجوکیشن کا انسٹیٹیوٹ تھا‘ جہاں دنیا کے مختلف ممالک سے طلبا اعلیٰ تعلیم کے لئے آئے تھے۔ یہاں کاظم کا انتخاب انسٹیٹیوٹ کے بانی ڈائریکٹر کے طور پر ہوا تھا۔ کاظم گیانا میں پیدا ہوا تھا‘ لیکن تعلیم اور روزگار کے لیے مختلف ممالک کی سیاحت کی اور پھر کینیڈا میں یونیورسٹی آف البرٹا میں ایک طویل عرصہ پڑھایا اور وہیں زندگی کی آخری سانس لی۔ پاکستان آ کر کاظم نے 1993ء سے 1997ء تک بطور ڈائریکٹر انسٹیٹیوٹ کی سربراہی کی اور اپنے وژن، وسیع تجربے، اور دلنواز شخصیت کی بدولت اسے عالمی سطح کا ادارہ بنا دیا۔
کاظم کے ساتھ کام کرنے سے مجھے لیڈرشپ کے ایک ایسے انوکھے اسلوب سے
انسٹی ٹیوٹ فار ایجوکیشنل ڈیولپمنٹ آغا خان یونیورسٹی کراچی
آگاہی ہوئی جس کا خمیر ایسی ساحری سے اٹھا تھا‘ جس میں دلوں کو تسخیر کیا جاتا ہے، جس میں وژن جذبوں کی آنچ کو بیدار کرتا ہے، جس میں لیڈر ایک (Catalyst) کی طرح عمل کو مہمیز دیتا ہے اور جس میں کام کرنے والوں کیلئے کام ایک خوش کن سرگرمی بن جاتا ہے۔ کاظم سے میری ملاقات میری زندگی کا ایک اہم واقعہ ہے‘ جس نے تعلیم اور لیڈرشپ کے حوالے سے میرے تصورات کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ کاظم سے میری پہلی ملاقات اسلام آباد کے ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں ہوئی۔ اس ڈنر کا اہتمام کاظم نے کیا تھا۔ اس ملاقات میں کاظم نے مجھے کراچی میں واقع آغا خان یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ (IED) کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ اس کی گفتگو کا ہر لفظ جذبے کی چاشنی میں گندھا ہوا تھا۔ لگتا تھا‘ یہ انسٹیٹیوٹ اس کے لیے محض اینٹ اور پتھر کی عمارت نہیں تھا‘ بلکہ اس کے خوابوں کا نگر تھا جو اسے جان سے زیادہ پیارا تھا۔ اسی ملاقات میں کاظم نے مجھے سے پوچھا: کیا میں اس کے خوابوں کے نگر کا حصہ بن سکتا ہوں؟ اس اچانک پیشکش پر میں نے سوچنے کے لیے کچھ وقت مانگا۔ اس کے ساتھ ہی کاظم نے مجھے کراچی میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی۔ ملاقات کے بعد گھر واپس آتے ہوئے سارے رستے مجھے کاظم کی باتوں کے افسوں نے اپنے حصار میں لئے رکھا۔ مجھے یوں لگا‘ ہم برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ کراچی کی کانفرنس میں، میں نے اپنا ریسرچ پیپر پڑھا۔ انسٹی ٹیوٹ کا مشاہدہ کیا۔ وہاں کے تعلیمی پروگراموں سے آگاہی حاصل کی۔ اساتذہ اور طلبا سے ملا۔ تیسرے دن مجھے کراچی سے واپس آنا تھا۔ اس وقت تک میں فیصلہ کر چکا تھا کہ کاظم کے خوابوں کے نگر کا حصہ بنوںگا۔ میں نے جب کاظم کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا کہ میں کراچی آنے کو تیار ہوں تو اس کے ہونٹوں پر وہی دلآویز مسکراہٹ کھِل اٹھی۔ مجھے یوں لگا جیسے کاظم کو شروع سے ہی یقین تھا کہ اس کے خوابوں کے نگر کی کشش مجھے ایک روز وہاں کھینچ لائے گی۔
بہت جلد میں کراچی سے مانوس ہو گیا۔ سمندر کی ہواؤں میں بسی شاموں نے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا۔ یہ IED کا ابتدائی دور تھا اور پاکستان کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک سے بھی طلبا یہاں پڑھنے آتے تھے۔ اسی طرح یونیورسٹی آف ٹورنٹو اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے اساتذہ اور پاکستانی اساتذہ مل کر پڑھاتے تھے۔ ڈائریکٹر آفس میں کاظم سے پہلی ملاقات مجھے آج تک یاد ہے۔ کاظم نے مجھے خوش آمدید کہا اور بتایا کہ انگریزی کے کورسز کی ذمہ داری مجھ پر ہو گی۔ یہ کورسز یونیورسٹی آف ٹورنٹوکے اساتذہ کے تعاون سے پڑھائے جا رہے تھے۔ کاظم نے مجھے بتایا کہ منصوبہ بندی ہی دراصل کامیابی کی طرف لے جانے والی سیڑھی ہے۔ کاظم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں مشترکہ منصوبہ بندی کے لیے یونیورسٹی آف ٹورنٹو جانے کیلئے تیار ہوں؟ یونیورسٹی آف ٹورنٹو کا پرانا طالب علم ہونے کے باعث میں نے اس پیشکش کو خوشدلی سے قبول کیا۔ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد میں اب بھی کینیڈا کے اس دورے کو یادکرتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ ادارے میں ایک نووارد کے لئے یہ بہت بڑا محرک تھا۔ کاظم دوسروں کو انسپائر کرنے کا ہنر جانتا تھا۔ کاظم سے کسی بھی موضوع پر گفتگو کرنا ایک منفرد علمی اور سیکھنے والا تجربہ تھا۔ حتیٰ کہ فیکلٹی میٹنگنز‘ جو عموماً بوریت سے بھرپور اور دلچسپی سے خالی ہوتی ہیں‘ بھی کاظم اپنی موجودگی کے باعث سیکھنے‘ سکھانے کے دلچسپ تجربات میں بدل دیتا تھا۔ کاظم مشرقی روایت کا سچا نمائندہ تھا‘ جس میں انکساری کُوٹ کُوٹ کے بھری ہوئی تھی۔ وہ ایک منکسرالمزاج اور سادہ انسان تھا، تصنع سے پاک۔ ایک حقیقی مرشد کی طرح وہ کبھی دوسروں کے خیالات کی مکمل نفی نہیں کرتا تھا۔ وہ پوری توجہ سے ہماری بات سنتا اور اکثر اوقات ہمارے خیالات میں فلسفی کی چاشنی شامل کرکے انہیں ارفع بنا دیتا‘ اور ہم خود پر فخر محسوس کرنے لگتے۔ اس کی یہی خوبی اس کی پُرتاثیر قیادت کا راز تھی۔ وہ اپنے رفقاء کار میں ہمہ وقت یہ احساس اجاگر کرتا کہ وہ سارے اس کے لئے کتنی اہمیت رکھتے ہیں۔ ایک کھرے لیڈر کی مانند اپنے ساتھیوں کو اعتماد سے لیس کرکے غیرمحسوس انداز میں ان کی تربیت کرتا‘ ان کی حوصلہ افزائی کرتا تاکہ وہ خود سے نئے اقدامات کر سکیں۔ وہ اکثر ہماری چھوٹی چھوٹی کامیابیوں پر خوشی منا کرکے انہیں celebrate کرتا۔ یوں وہ غیر محسوس طریقے سے مستقبل کے رہنمائوں کی پنیری تیار کر رہا تھا۔
کاظم کا اس بات پر پُختہ ایمان تھا کہ پاکستان کے تعلیمی حلقوں میں صرف اسی صورت میں بامعنی تبدیلی آئے گی‘ جب ہم مرکزی دھارے کے سرکاری سکولوں میں تبدیلی لائیں گے۔ اسی وجہ سے وہ سرکاری سکولوں سے رابطے پر بڑا زور دیتے تھے۔ یوں کاظم سرکاری اور نجی باہمی شراکت کا بڑا داعی تھا۔ وہ صرف کرسی پر بیٹھ کر افسری کے مزے لینے والا ڈائریکٹر نہیں تھا بلکہ وہ عملی میدان میں لوگوں سے براہِ راست رابطے کا قائل تھا۔ IED ایک انگریزی میڈیم ادارہ تھا۔ دور دراز سے آئے کچھ طلبا کیلئے یہ مشکل تھا کہ وہ انگریزی لکھ سکیں یا اس میں ہم کلام ہو سکیں۔ کاظم ان کے زبان کے مسائل پر خصوصی توجہ دیتا کیونکہ اسے اس بات کا پختہ یقین تھا کہ IED کے یہی شرکا ادارے کے علمبردار بنیں گے‘ اور اب میں سوچتا ہوں کا اس کا اندازہ کتنا درست تھا۔ کاظم کو IED میں خدمات سرانجام دینے کے بعد کینیڈا جانا پڑا جہاں وہ یونیورسٹی آف البرٹا میں پروفیسر ایمرطس تعینات ہو گیا۔ پاکستان سے رخصت ہونے کے بعد بھی وہ
البرٹا کینیڈا میں کاظم کی آخری آرام گاہ
پاکستانیوں سے جُڑا رہا۔ آخری دنوں میں بیماری نے کاظم کو وہیل چیئر تک محدود کر دیا تھا۔ اس عالم میں بھی اس نے لکھنا پڑھنا نہیںچھوڑا۔ وفات سے کچھ عرصہ پہلے میں نے کاظم کو اپنی کتاب کا فلیپ لکھنے کیلئے کہا۔ بیماری کے باوجود کچھ ہی دنوں میں کاظم نے مجھے فلیپ لکھ بھیجا۔ یہ فلیپ کاظم کے ساتھ میرا آخری رابطہ تھا۔ اس آخری تحریر میں بھی کاظم نے ہمیشہ کی طرح میری حوصلہ افزائی کی۔ کاظم اگرچہ جسمانی طور پر یہاں موجود نہیں لیکن وہ مینارِ نور کی طرح ہمارے ساتھ رہے گا۔ میں نے کاظم سے پُرتاثیر قیادت کے رہنما اصول اخذ کیے۔ میں نے کاظم سے سیکھا کہ قیادت محض اپنی بات منوانے یا مرضی چلانے کا نام نہیں ہے‘ بلکہ یہ اس سے بڑھ کرکوئی شے ہے۔ قیادت تو بصیرت ہے، ذہن سازی ہے، مہربانی ہے، دوسروں کیلئے فکر، ان کیلئے احساس اور مل بانٹنے کا نام ہے۔ اصل جادو تو شفقت و محبت میں ہے‘ جو دلوں کو مسخر کرتا ہے۔ کاظم ایسا ہی قائد تھا‘ جس نے ہمیں محبت کے لازوال رشتے میں باندھ دیا تھا۔ سچ ہی کہتے ہیں‘ محبت میں ماضی کا صیغہ ہوتا ہے نہ ہی مستقبل کا۔ سارے زمانے ڈھل کر حال بن جاتے ہیں۔ وقت ایک لمحے میں رُک جاتا ہے اور پھر یہ لمحہ صدیوں پر محیط ہو جاتا ہے۔

20 comments:

  1. That's true. A true leader is one who works together with his team and always shows a positive gesture. Great article 👍

    ReplyDelete
  2. Thanks a lot. Very true. Please do write your name with your comment.

    ReplyDelete
  3. اچھا استاد اور اچھا قائد اپنے افکار دوسروں پر مسلط کرنے کے بجائے اپنے عمل اور کردار سے زندہ مثال بن جاتا ہے اور اس کی شخصیت انمٹ نقوش چھوڑ جاتی ہے. کاظم بیکس ایسے ہی استاد تھے. آپ نے انہیں بہت اچھا خراجِ تحسین پیش کیا ہے.

    ReplyDelete
  4. inspiring we need mentors like him in academia.

    ReplyDelete
  5. Like always, an amazing article which moves you to a state where you're reminded of the treasure trove of emotions that lie in you. Loved to read about Kazim Bacchus. Thanks for writing Dr Sb.

    ReplyDelete
    Replies
    1. Thanks for your reflections. please do not forget to write your name with your comments. Thanks.

      Delete
  6. Impressive.We should remember these poineers.Thanks Shahid Siddique

    ReplyDelete
    Replies
    1. Yes We do need to acknowledge and celebrate them:)

      Delete
  7. Interesting and inspiring article.

    ReplyDelete
  8. Beautiful. Great you are writing more on education and about your time in educational institutions. I enjoyed your columns on Manchester University as well.

    ReplyDelete
  9. Thank you sir for writing about Sir Bacchus. You, Dr. Memon and Dr Alan set the direction and philosophy of Institute with Dr Bacchus and provide us opportunity to develop ourselves as educationist. Thank you all of you.

    ReplyDelete
    Replies
    1. Thanks. When were u there at IED?

      Delete
    2. Yes sir, at IED, Class of 2000-2002, But I also visited you in SPELT conference through Zakia Appa and Sir Mohsin Tajani.

      Delete
  10. Great and very inspiring. We had then research seminars named Kazim Bacchus Research Seminar at IED

    ReplyDelete
    Replies
    1. Sir, no doubt he has left an indelible mark on you which led to a trickleddown effect. Now we have you as our mentor n guide. Full credit to you to have passed on the legacy of a dynamic leadership. I'm also indebted to you n late Dr. Saeeda, who was to me, humility personified. Have learned a lot from you n her. May Allah Subhanahu Rest her soul in peace n Raise her Darajaat in Jannat ul Firdous.

      "Nigah buland sukhan dilnawaz jaan pursoz
      Yehi hai rakht e safar mir e karawaan kay liye"

      Jazak Allahu Khairun kasira. ����

      Delete
    2. Thanks Nasim for your reflections.

      Delete