حسن صہیب مراد: وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا
شاہد صدیقی
کبھی کبھی گھر سے ہم اپنی منزل کا تعین کرکے نکلتے ہیں‘ لیکن راستے میں ہمیں کوئی نادیدہ آواز پکارتی ہے اورہمارے قدم بے اختیار اس کی طرف اٹھناشروع ہوجاتے ہیں۔اس دن بھی ایساہی ہوا تھا۔ ان دنوں میں کراچی میں آغاخان یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشنل ڈیویلپمنٹ میں پڑھاتا تھا۔ تین سال یہاں پڑھانے کے بعد میرا انتخاب کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ میں ہوگیا تھا۔ یہ1999ء کے سال کا ایک روشن دن تھا۔ اُس روز ہمدرد یونیوسٹی کی کانوکیشن تھی۔ کیسااتفاق تھاکہ میرے ساتھ والی نشست حسن صہیب مراد کی تھی۔ یہ حسن بھائی کے ساتھ میری پہلی ملاقات تھی۔ ابتدائی تعارف کے بعد جب انہیں معلوم ہوا