موہنجو داڑو: فاصلوں کی کمند سے آزاد
شاہد صدیقی
تصور کا طلسم بھی کیسا طلسم ہے؟ پلک جھپکنے میں دوریاں سمٹتی اورفاصلے تحلیل ہوجاتے ہیں اور پھرتصور کی آنکھ ہمیں من چاہے منظر دکھاتی ہے۔ آج موہنجوداڑو کے آڑھے ترچھے راستوں پر چلتے ہوئے میری آنکھوں میں کتنے ہی منظرروشن ہوگئے۔ بازار میں کاروبار‘ گاہکوں کا شور ‘ شطرنج کی بازی‘ موسیقی کی محفلیںاور کھیتوں میں لہلاتی فصلیں۔ وہ دسمبر کی ایک صبح تھی اورمیں موہنجوداڑو کے گلی کوچوں میں گھوم رہاتھا۔ سردیوں کے دن مختصرہوتے ہیں ‘پتا ہی نہیں چلتا کہ کب دن چڑھا اورکب شام ہوگئی‘ لیکن سردیوں کی دھوپ بہت قیمتی ہوتی ہے‘ شایدکوئی بھی چیز جب نایاب ہوتی ہے قیمتی بن جاتی ہے۔ یہ بھی دسمبر کا ایک دن تھا اورمیں250قبل مسیح کی تاریخ کی انگلی پکڑکر چل رہاتھا اورحیرت میرے چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ کیساشہرہوگا اورکیسے لوگ‘ کبھی زندگی ان گلیوں میں ہنستی مسکراتی ہوگی اوراب ہرطرف ایک خاموشی ہے اور ہُوکاعالم۔ ہاں کبھی کبھی یہاں وہاں چند سیاح نظر آجاتے ہیں ‘جن میں کچھ غیرملکی بھی ہوتے ہیں‘