ڈاکٹر شاھد صدیقی: ھجوم میں ایک آدمی
سعدیہ قریشی
اکتوبر2014ء میں جب پروفیسر ڈاکٹر شاہد صدیقی نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا عہدہ سنبھالا تو ان کا استقبال ایک ایسی فضا نے کیا جہاں ہر طرف بکھرائو الجھائو اور غیر حقیقی صورت حال کا راج تھا۔
پہلی ہی سرکاری میٹنگ میں انہیں بتایا گیا کہ گزشتہ دو برسوں سے یونیورسٹی کے داخلوں کی شرح بہت نیچے آ چکی ہے۔ اگر صورت حال یہی رہی تو یونیورسٹی ملازمین کی تنخواہیں دینے کے قابل نہ رہے گی۔ امیج اس وقت اس کا ادارے کا یہ بن چکا تھا کہ یہ سوئی ہوئی کھوئی ہوئی سی جامعہ تھی۔ جس کی ڈگری کی قدروقیمت مارکیٹ میں گھٹتی جا رہی ہے کہ تحقیق کا یہاں کوئی کلچر نہیں تھا
ریسرچ ہو گی تو ریسرچ جرنلز چھپیں گے۔ جدید ٹیکنالوجی کے دور میں یونیورسٹی اسی پرانی ڈگر پر گامزن تھی۔ آن لائن ایڈمشن کا تصور تک موجود نہ تھا۔ اس کے علاوہ بے شمار ایسی چیزیں تھیں کہ یہ ادارہ ملک کے دوسرے اہم تعلیمی اداروں کے مقابلے میں کافی بیک ورڈ تھا۔
اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر شاہد صدیقی اوپن یونیورسٹی میں آنے سے قبل لمز آغا خان یونیورسٹی اور غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ جیسے ماڈرن اداروں سے منسلک رہ چکے تھے۔یوں ملک کے نامور اور ممتاز تعلیمی اداروں میں کام کرنے کا تجربہ ان کے پاس موجود تھا۔ ان اداروں کے ماحول اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ماحول میں جو خوفناک تفاوت موجود تھا اس نے ہی ڈاکٹر شاہد صدیقی کے دل میں یہ جوت جگائی کہ وہ اس ادارے کے لیے کچھ کر کے جائیں۔
ڈاکٹر صاحب نے اس چار سال کے عرصہ میں جو کچھ اس ادارے کو دیا اس کی فہرست بہت طویل ہے۔ لیکن چند چیزوں کا تذکرہ کرنا بہت ضروری ہے۔ اور یہ اس لیے ضروری ہے کہ ہم بطور قوم صرف ماتم اور رونے دھونے سے نکل کر کامیابی امید تعبیر اور روشنی کو بھی سیلیبریٹ کرنا سیکھیں۔ ڈاکٹر صاحب چونکہ خود بھی تحقیق کے آدمی ہیں اور ملک کی بہترین یونیورسٹیوں کا تجربہ اور مشاہدہ ان کے پاس تھا کہ تحقیق کی فضا میں ہی تعلیمی ادارے نشو نما پاتے ہیں سو انہوں نے تحقیق کا کلچر بنانے پر بطور خاص توجہ دی اور تحقیق کے میدان میں عرق ریزی کرنے والے سکالرز کو کیش ایوارڈ دینے کے incentiveکا اعلان کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہ اگر کوئی ریسرچ پراجیکٹ کرنا چاہتا ہے تو یونیورسٹی اس کو فنڈ مہیا کرے گی۔
ڈاکٹر صاحب نے اس چار سال کے عرصہ میں جو کچھ اس ادارے کو دیا اس کی فہرست بہت طویل ہے۔ لیکن چند چیزوں کا تذکرہ کرنا بہت ضروری ہے۔ اور یہ اس لیے ضروری ہے کہ ہم بطور قوم صرف ماتم اور رونے دھونے سے نکل کر کامیابی امید تعبیر اور روشنی کو بھی سیلیبریٹ کرنا سیکھیں۔ ڈاکٹر صاحب چونکہ خود بھی تحقیق کے آدمی ہیں اور ملک کی بہترین یونیورسٹیوں کا تجربہ اور مشاہدہ ان کے پاس تھا کہ تحقیق کی فضا میں ہی تعلیمی ادارے نشو نما پاتے ہیں سو انہوں نے تحقیق کا کلچر بنانے پر بطور خاص توجہ دی اور تحقیق کے میدان میں عرق ریزی کرنے والے سکالرز کو کیش ایوارڈ دینے کے incentiveکا اعلان کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہ اگر کوئی ریسرچ پراجیکٹ کرنا چاہتا ہے تو یونیورسٹی اس کو فنڈ مہیا کرے گی۔
بین الاقوامی کانفرنس میں اگر کوئی سکالر اپنی ریسرچ لے کر جانا چاہے گا تو اس کے ٹریولنگ اخراجات یونیورسٹی برداشت کرے گی۔ ریسرچ اور اپ ٹو ڈیٹ لائبریری کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔
ان سے پہلے کلچر یہ تھا کہ لائبریری صبح آٹھ بجے کھلتی 4بجے بند ہو جاتی۔ ہفتہ اتوار کو چھٹی ہوتی۔ لیکن اب لائبریری ہفتے کے ساتوں دن کھلی رہتی ہے۔ صبح آٹھ سے شام سات بجے تک لائبریری کا وقت ہے۔ 2014ء سے پہلے سیمینار کانفرنسوں اور ریسرچ جرنلز کا کوئی کلچر یونیورسٹی میں موجود نہ تھا۔ مگر آج 4سال کے بعد کامیابیوں کی فہرست میں تحریر ہے کہ 39کانفرنسز اس یونیورسٹی نے کروائیں۔ دو سو سے زائد سیمینارز منعقد کئے
فاصلاتی تعلیم کے باوجود یہاں سے منسلک طلبہ و طالبات کو ایک علمی فضا میں انٹرایکٹ کرنے کا موقع ملا۔ ان کا ایکسپوژر بڑھا۔17ریسرچ جرنلز یونیورسٹی نے چھاپے۔ ایک اور زبردست کام ڈاکٹر صاحب نے یہ کیا کہ ہر سطح پر یونیورسٹی کے ملازمین کے طور پر ٹریننگ کا بندوبست کیا۔ جن میں پروفیسرز اساتذہ لائبریرین۔ مالی اور دوسرا ٹیکنیکل سٹاف بھی شامل ہے۔ اوپن یونیورسٹی پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہوتا تھا کہ سال ہا سال سے ان کا نصاب اپ ڈیٹ نہیں ہوا۔ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں بہت سے چیزیں تیزی سے irrelevantہو جاتی ہیں۔ یہ بھی ڈاکٹر شاہد صدیقی کو کریڈٹ جاتا ہے کہ 90فیصد نصاب کو اپ ڈیٹ کیا۔
26نئے پروگرام یونیورسٹی نے شروع جو جدید دور کے تقاضوں کے عین مطابق ہیں۔ آن لائن ایڈمشن کا نظام ہو یا پھر آن لائن شکایت سیل کا قیام یا پھر سوشل میڈیا پر Life at Aiouکے نام سے ویب سائٹ بنانا۔ ہر ممکن کوشش کی گئی کہ یونیورسٹی کے بیک ورڈ امیج کو کھرچ کر جدید اور وائبرینٹ امیج بنایا جائے تاکہ اس سے منسلک طلبہ و طالبات میں فخر کا احساس اجاگر ہو۔
اس کے علاوہ بے شمار ایسے کام ہیں جس سے یونیورسٹی کے ملازمین کے اندر غیر یقینی کے احساسات کا خاتمہ ہوا۔
کچھ ایسے کام جو ڈاکٹر صاحب نے ان چار سالوں میں کر کے لوگوں کی دعائیں سمیٹیں وہ یہ ہیں کہ پنشن کا سارا نظام آن لائن کر دیا۔ اب بزرگ پنشنرز کو نہ تو قطاروں میں کھڑا رہنا پڑتا ہے نہ بنکوں کے باہر چیک لینے کے لیے خوار ہونا پڑتا ہے۔ بس ایک ٹیکسٹ میسج سے انہیں اطلاع ہو جاتی ہے کہ ان کے پیسے بنک اکائونٹس میں چلے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ بے شمار ایسے کام ہیں جس سے یونیورسٹی کے ملازمین کے اندر غیر یقینی کے احساسات کا خاتمہ ہوا۔
کچھ ایسے کام جو ڈاکٹر صاحب نے ان چار سالوں میں کر کے لوگوں کی دعائیں سمیٹیں وہ یہ ہیں کہ پنشن کا سارا نظام آن لائن کر دیا۔ اب بزرگ پنشنرز کو نہ تو قطاروں میں کھڑا رہنا پڑتا ہے نہ بنکوں کے باہر چیک لینے کے لیے خوار ہونا پڑتا ہے۔ بس ایک ٹیکسٹ میسج سے انہیں اطلاع ہو جاتی ہے کہ ان کے پیسے بنک اکائونٹس میں چلے گئے ہیں۔
دوسرا کام ریٹائرڈ ملازمین کے لیے ویلکم ہوم لائونج بنایا، جہاں چائے کافی کتاب ٹی وی کی سہولتیں مہیا کی۔ گریڈ1 سے گریڈ 22تک کے ریٹائرڈ ملازمین یہاں آ کر خوشگوار وقت گزار سکتے ہیں۔
فی میل اور میل ایمپلائز کے لیے دو فٹنس سنٹر بنائے۔ ورزش کی جدید مشینیں رکھی گئیں اور ساتھ ہی تربیت یافتہ ٹرینر رہنمائی کو موجود ہیں
۔ڈے کیئر سنٹر کو اپ ڈیٹ کیا۔ نئی بلڈنگ میں منتقل کر کے اسے اے سی جھولوں اور کھلونوں سے مزید آرام دہ بنایا۔
منفرد اور حیران کن کام کرنے والے ڈاکٹر شاہد صدیقی نے ایک اور خوبصورت کام یہ کیا کہ یونیورسٹی میں کام کرنے والے مالیوں اور سینٹری ورکرز کے لیے بھی الگ سے ریسٹ رومز بنائے۔ اب وہ اپنے کام کے بعد اپنے ریسٹ روم میں جا کر چائے پیتے ہیں اور گپ شپ کرتے ہیں اور رخصت ہونے والے میزبان وی سی کے لیے اداس بھی ہیں اور دعاگو بھی۔
فی میل اور میل ایمپلائز کے لیے دو فٹنس سنٹر بنائے۔ ورزش کی جدید مشینیں رکھی گئیں اور ساتھ ہی تربیت یافتہ ٹرینر رہنمائی کو موجود ہیں
۔ڈے کیئر سنٹر کو اپ ڈیٹ کیا۔ نئی بلڈنگ میں منتقل کر کے اسے اے سی جھولوں اور کھلونوں سے مزید آرام دہ بنایا۔
منفرد اور حیران کن کام کرنے والے ڈاکٹر شاہد صدیقی نے ایک اور خوبصورت کام یہ کیا کہ یونیورسٹی میں کام کرنے والے مالیوں اور سینٹری ورکرز کے لیے بھی الگ سے ریسٹ رومز بنائے۔ اب وہ اپنے کام کے بعد اپنے ریسٹ روم میں جا کر چائے پیتے ہیں اور گپ شپ کرتے ہیں اور رخصت ہونے والے میزبان وی سی کے لیے اداس بھی ہیں اور دعاگو بھی۔
بطوور وائس چانسلر ڈاکٹر صاحب کی مدت ملازمت اکتوبر کے پہلے ہفتے میں ختم ہو رہی ہے الوداعی تقریبات کا سلسلہ ایک ماہ سے جاری ہے۔ ایک فیئر ویل پارٹی یونیورسٹی کے مالیوں نے وی سی صاحب کو دی گزشتہ چار سال میں انہوں نے اس اجڑے گلستان کو مہکتے مہکتے باغ میں بدل دیا ہے اور اب وہ ایک باغباں کی طرح ہی اس کے مستقبل کے لیے فکر مند ہیں۔ کہ یہ مہکتا ہوا باغ کسی ایسے باغباں کے ہاتھ میں جائے جو اس کی بہار کی حفاظت کر سکے۔
یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ڈاکٹر شاہد صدیقی کسی بھی طور اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ ان کی ٹرم میں توسیع ہو۔ بقول ان کے وہ اپنے حصے کا کام کر چکے ہیں۔ سو مسافر اب اگلی منزل کے لیے رخت سفر باندھ چکا ہے۔
یہ بھی ایک المیہ ہے کہ تعلیم جیسا بنیادی شعبہ اہل اختیار اقتدار کی بے توجہی کی نذر ہوا۔ حال یہ ہے کہ اوپن یونیورسٹی سمیت وفاق کی تین دوسری جامعات کے وی سی صاحبان کی اکتوبر کے پہلے ہفتے میں مدت ملازمت ختم ہو رہی ہے۔ چھ ماہ ہو چکے ہیں نئے وی سی کی تعیناتی کے لیے اخبارات میں اشتہار پرمگرپیش رفت صفر ہے۔ ایڈہاک ازم سے ادارے پنپتے نہیں۔ تنزلی کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ ایشو وزیر تعلیم شفقت محمود کی فوری توجہ کا مستحق ہے۔
اکتوبر کے پہلے ھفتے میں ڈاکٹر صاحب اس ادارے سےرخضت ھورھے ھیں جس کو سلجھانے اور سنوارنے میں انہوں نے اپنی چار سالہ وی سی شپ کی مدت میں ایک بھی رخصت نہیں ۔
ھر روز اپنے دن کا آغاز صبح آٹھ بجے کیا۔
کسی بیرونی دورے پر نہیں گئے۔
ھر روز اپنے دن کا آغاز صبح آٹھ بجے کیا۔
کسی بیرونی دورے پر نہیں گئے۔
اور اس چارسال کی ریاضت کا ثمر ھے کہ آج یونیورسٹی داخلوں کی شرح اور کیش فلو میں اپنی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ھے۔
محروم طبقے کے لیے ڈاکٹر صا حب کی توجہ خصوصی رھی۔
انہوں نے جیل کے قیدیوں کے لیے۔۔معذور طلبہ کے لیے۔۔وانا اور فاٹا کےطلبہ کے لیے۔۔اور ٹرانس جینڈرز کے لیےمفت تعلیمی سلسلوں کا اغاز کیا۔
بلو چستان میں میٹرک تک تعلیم مفت کرنے کا اعلان کیا۔
بصارت سے محروم طلبہ کے لیے جدید کمپیوٹرائزڈ لائبریری قائم کی پھر صرف اوپن یونورسٹی کے طلبہ تک محدود نہیں رکھا ۔۔اب کسی تعلیمی ادارے کا نابینا طالب علم اس جدید لائیبریری کو استعمال کر سکتاھے۔۔
وہ حیران کن ویزن رکھنے کے ساتھ ساتھ درد دل کی دولت سے بھی مالا مال ھیں۔۔کاش پاکستان کی ھر یونورسٹی کے نصیب میں ایسا سر براہ ھو۔
محروم طبقے کے لیے ڈاکٹر صا حب کی توجہ خصوصی رھی۔
انہوں نے جیل کے قیدیوں کے لیے۔۔معذور طلبہ کے لیے۔۔وانا اور فاٹا کےطلبہ کے لیے۔۔اور ٹرانس جینڈرز کے لیےمفت تعلیمی سلسلوں کا اغاز کیا۔
بلو چستان میں میٹرک تک تعلیم مفت کرنے کا اعلان کیا۔
بصارت سے محروم طلبہ کے لیے جدید کمپیوٹرائزڈ لائبریری قائم کی پھر صرف اوپن یونورسٹی کے طلبہ تک محدود نہیں رکھا ۔۔اب کسی تعلیمی ادارے کا نابینا طالب علم اس جدید لائیبریری کو استعمال کر سکتاھے۔۔
وہ حیران کن ویزن رکھنے کے ساتھ ساتھ درد دل کی دولت سے بھی مالا مال ھیں۔۔کاش پاکستان کی ھر یونورسٹی کے نصیب میں ایسا سر براہ ھو۔
کاشف حسین غائر کے دو شعر اس عظیم پاکستانی کے نام جس نے اس خرابے میں جہاں ھم ھمیشہ اداروں کی تباھی اور بربادی کی داستانیں سنتے ھیں ، ایک تباہ ھوتے ادارے کو کامییابی کی راہ پر ڈالنے کی روشن مثال قائم کی
دیکھ تو اس کباڑ خانے میں
کوئی شے قیمتی نکل آئے
کوئی شے قیمتی نکل آئے
بات تو جب ھے اتنے لوگوں میں
ایک بھی آدمی نکل آ ئے۔۔! !
ایک بھی آدمی نکل آ ئے۔۔! !
No comments:
Post a Comment