Education, Development, and Change
Email Dr. Shahid Siddiqui

Wednesday, October 23, 2019

آدھے ادھورے خواب

 آدھے ادھورے خواب 

عائشہ احمد کا تبصرہ

مجھے آج بھی یاد ہے جب میں نے ڈاکٹر شاہد صدیقی سے ان کی ایک تحریر پڑھنے کے بعد اک سوال کیا تھا، "سر آپ کی یہ کہانی بھی ادھوری کیوں ہے۔" کچھ توقف کے بعد مسکرا کر وہ ٹال گئے، میرے مزید اصرار کرنے پر انھوں نےجواب کے بجائے اپنی کتاب تھاما دی۔ 'آدھے ادھورے خواب' نہ صرف خوابوں کی کتاب ہے، یہ کتاب ہے تو رشتوں کی، محبتوں کی ہے، یہ کتاب ہے تبدیلی کی۔ اس کتاب کے ہر ورک پہ اک سبق رقم ہے، ہر کردار ایک کہانی ہے۔ ہر شخص کسی جستجو میں ہے، ایک جذبہ ہے جس نے تمام کرداروں کو جوڑ رکھا ہے۔ اور یہ جذبہ تبدیلی (reform) کا ہے، وہی جذبہ جس کے تحت یہ ناول لکھا گیا۔
ویسے تو کہانی کا کوئی بھی کردار ثانوی نہیں، پھر چاہے وہ بینش اور تصور کی learning spirit ہو یا شمائل کی women empowerment ، شمائل کا کردار ایک زندہ مثال ہے کہ اصل خوشی پیسے میں نہیں personal growth میں ہے۔ ان سے ہٹ کر اگر امتشال اور پروفیسر رائے
کے کرداروں کو ایک دوسرے سے الگ کر کے دیکھا جائے تو یہ زیادتی ہوگی۔ دونوں کے مابین محبت کا تو نہیں پر عقیدت کا رشتہ ضرور تھا۔ یہ رشتہ خوابوں کا رشتہ ہے، ایک future ہے تو دوسرا past, جیسے فیچر اور پاسٹ کا ناطہ نہیں ٹوٹ سکتا بلکل ویسے ہی پروفیسر رائے اور امتشال آغا کا رشتہ بھی اٹوٹ ہے۔ دونوں کے خواب، دکھ اور سکھ مشترک ہیں بلکل ویسے ہی جیسے فیض صاحب نے فرمایا:
ہم پہ مشترکہ ہیں یہ احسان و غم الفت
پروفیسر رائے ایک teacher/ reformer کی بہترین مثال ہیں۔ ان کے آئیڈیاز بہت ہی progressive تھے۔ ان کے انہی آئیڈیاز کو ان کے تمام شاگرد اگے propagate کر رہے ہیں۔ پھر چاہے وہ بینش ہو، تصور یا امتشال آغا سب کے سب فروغ تعلیم سے سوشل ریفارم لانے میں مصروف ہیں۔ وہ تعلیم کے theoretical version سے زیادہ، اس کی practicality پر یقین رکھتے ہیں۔ جو teacher center classroom کے بجائے سٹوڈنٹس کی creativity کو اجاگر کرنے کے قائل ہیں، مثلا پھول کی مثال، جس کا انتخاب تو پروفیسر رائے نے کیا پر اس ٹیکنیک کی پیروی سب نے ہی کی۔ تعلیم کے فروغ کے لیے کھڑے ہونا اور justice کے لیے آواز اٹھانا بھی اسی تحریک کا ایک ذریعہ ہے۔
پروفیسر رائے کے نہ ہونے کے باوجود ان کے آئیڈاز، ادھورے خوابوں کی صورت میں زندہ ہیں، جنہیں ان کے خاص شاگرد پورا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ پروفیسر رائے کے بعد ان کے ادھورے خواب ہی ان کا اثاثہ ہیں، جو اب ان کے سٹوڈنٹس کی آنکھوں میں جھلکتے ہیں۔ جیسا کہ پروفیسر رائے نے کہا: "خواب اور نظریے کی محبت سب سے ارفع محبت ہے۔" اور یہ تمام لوگ اسی محبت سے جڑے علم کے ذریعے ریفارم لانے کی اپنی سی کوشش میں مگن ہیں۔ پروفیسر رائے کے گزر جانے کے باوجود ان کی ائیڈیولوجی، اسی جوش و تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ اس موقع پر ناصر کاظمی کا ایک شعر پروفیسر رائے کی شخصیت کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے، کوئی ہم سا ہوگا

No comments:

Post a Comment