پروفیسر نعیم مسعود کا کالم
شاہد صدیقی: مرکزی شہر کا تعلیمی مرکزہ
28 اکتوبر 2018 2018-10-28
تعلیمی ہیراپھیریاں ریاست میں ناگن جیسی بیورو کریسی، زہر آلود سیاست، جان لیوا کرپشن اور کوڑھ کی کاشت والی مطلق العنانیت کو عام کرتی ہیں۔ مثبت تعلیم و تحقیق اور کمیونٹی سنٹرز اور مراکز بننے والے تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں بگاڑ کو پاش پاش کر کے بناؤ کے جاندار و جاندار دریچے کھولتے ہیں، یہی جمہوریت، یہی ملکی و ذاتی دفاع اور گھر سے ریاست تک کی اقتصادیات کو دوام بخشتے ہیں۔ جہاں تعلیم و تحقیق عشق ہوں وہاں کبھی زوال کا بسیرا ممکن ہی نہیں!
شہر اقتدار میں جب کبھی جاؤں تو یہ معمول ہے کہ ایچ ای سی، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پارلیمنٹری سروسز (PIPS) اور پنجاب ہاؤس کا چکر ضرور لگتا ہے لیکن گزشتہ تین چار سالوں سے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی بھی اس فہرست میں شامل ہے۔ حلق یاراں سے اسلام آباد جانے والے احباب اکثر مذاق اڑاتے ہیں کہ، میں سیاسی پنڈتوں کے درشن اور ایوان اقتدار کے جھلملاتے اور مہکتے مہکاتے لوگوں کے دیدار کئے بغیر واپس لاہور لوٹ آتا ہوں۔ حالانکہ سابق دور حکومت میں کچھ دوستوں کے پاس وزارتی قلمدان بھی تھے اور ان کی جانب سے دعوت عام اور دعوت خاص بھی ہوتی مگر ہم شاید ان کی طرز میزبانی اور طرز حکمرانی کو ایک ہی زاویے سے دیکھنے کے مرض میں مبتلا تھے سو زیارتوں کا حوصلہ نہ رکھتے۔ گویا ایسے دلرباؤں کی شیریں بیانیاں و خوش الحانیاں عملی طور پر صفر تاہم قولی طور پر " ڈائیا بیٹک " کے علاوہ کچھ نہیں ہوتیں۔ ناروے کے شہر اوسلو میں جب چار سال قبل سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی اور موجودہ ایم این اے مرتضیٰ جاوید عباسی سے ملاقات ہوئی تو اس "رولنگ" جاری کی، آئندہ آپ جب اسلام آباد آئیں گے تو میری میزبانی کے علاوہ کسی اور کی میزبانی کو قبول نہیں کریں گے۔ کہتے تو وہ بھی بہت تھے مگر ہم جانتے ہیں کچھ سیاسی بوقت ضرورت غیر سماجی ہو جاتے ہیں لہذا کئی بیماریوں کے علاج سے پرہیز بہتر ہوتا ہے۔ دو لوگ اسلام آباد میں ہمیں ایسے ملے جن سے تعلق پرانا تو نہ تھا مگر گہرا بہت تھا۔ کوئی ضروری نہیں کہ پرانے تعلق بزرگ بھی ہوں بس اکثر بوڑھے ہی ہوتے ہیں۔ بہرحال عباسی صاحب اور ڈاکٹر شاید صدیقی کے دونوں اس قدر محبت کرنے والے لوگ ہیں کہ ان پر شک کرنا بھی تعزیرات کے زمرے میں آتا ہے مگر ہم اپنی آمد کا مرتضیٰ جاوید عباسی کو بتاتے نہ اور شاہد صدیقی سے چھپاتے نہ۔ مرتضی جاوید عباسی کاشیڈول اور ایکوسسٹم بڑے پیچیدہ لگتے اور صدیقی صاحب کے بہت فہمیدہ!
کم و بیش ساڑھے تین سال قبل میں لاہور سے بطور خاص ماروی میمن چئرمین بیں ظیر انکم سپورٹ پروگرام اور اس وقت کے وزیر مملکت برائے تعلیم و داخلہ انجنئر بلیغ الرحمن کو ملنے گیا۔ مگر ان ملاقاتوں کے بات بہت مایوسی ہوئی کیونکہ دونوں کے وڑن اور عمل میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ سوچا غم غلط کرنے کیلئے اس وقت کے چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر مختار احمد سے ملتے ہیں۔ وہ مصروف تھے پس انہوں نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی تقریب ہی میں مدعو کرلیا۔ پہنچا تو انہوں نے سٹیج ہی پر بلا لیا۔ میرے لئے کسی مہربان نے رئیس جامعہ والی نشست خالی کردی اور حسن اتفاق کہ میں ڈاکٹر صدیقیکے ساتھ بیٹھ گیا۔ آنکھیں لڑیں اور کچھ ملیں بھی۔ سیل فون نمبروں کا تبادلہ ہوا۔ ڈاکٹر صاحب سے بالمشافہ یہ پہلی ملاقات تھی اس سے قبل میرا ان سے یکطرفہ ملن بطور قاری انگریزی و اردو کالموں اور کتابوں ہی میں تھا۔
جب کبھی فون کیا صدیقی صاحب دفتر میں موجود۔ پورے خار سال کے وائس چانسلرانہ دور میں ایک بھی چھٹی نہیں۔ ٹھیک 8 بجے صبح آجاتے اور سر شام واپس لوٹتے۔ وی سی حضرات کے بیرون ملک کے بہت دورے ہوتے ہیں لیکن یہ صرف ایک دفعہ گئے۔ کہتے کہ سیٹ پر رہنا باہر جانے سے زیادہ ضروری ہوتا ہے۔ مجھے ان کے پاس ہر دفعہ جانا اس لئے اچھا لگتا کہ سیکھنے کو کوئی نئی چیز ملتی۔ وہ ریفارمز کے آدمی ہیں۔ قلم و قرطاس سے انہیں پیار ہے۔ مزاج میں سلیقگی، تعلقات میں تازگی، گفتگو میں شگفتگی، اردو و انگریزی ادب سے وابستگی اور گفتگو میں شعر و شاعری ایسے ٹانکتے ہیں جیسے مولانا ابو الکلام آزاد اپنی تحریروں بالخصوص " غبار خاطر " پروئے۔
اہل نظر اس بات سے آشنا ہیں کہ کئی وی سی، وی سی کم اور "وی سی آر" زیادہ لگتے ہیں تاہم ڈاکٹر شاہد صدیقی ہمیشہ ایک سالم وی سی لگے! 2014 تا اکتوبر 2018 یونیورسٹی کا وی تاریخ ساز دور ہے جس میں شہر اقتدار کا یہ ادارہ تعلیمی و تربیتی و تحقیقی و ادبی سرگرمیوں کا گہوارہ بنا دہا، تقریباً 39 ریسرچ کانفرنسیں، 17 ریسرچ جرنلز، 2 سو سے زائد سیمینار اور تحقیقی مقالوں میں سو گنا اضافہ بیمثال اعزازات کا حصول ہے۔ وہ لائبریری جو ساری عمر سہ پہر 4 بجے بند ہوجاتی اب تحقیق کاروں کی مدد کیلئے شام 7 بجے تک کھلی رہتی۔ غریب یتیم بچوں کیلئے تعلیمی سہولت مفت کی گئیں۔ نابینا اور بہرے طلبا و طالبات کیلئے جدید لیبز اور لائبریری بنائی گئی۔ لگ بھگ پندرہ لاکھ طلبہ زیور تعلیم سے آراستہ ہوئے ہیں۔ بلوچستان اور فاٹا کے طلبہ کو میٹرک سطح رکنیت تعلیم کی فراہمی جیسا قابل ستائش قدم ڈاکٹر صدیقی کی تعلیم دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سپورٹ سسٹم ، کمپلینٹ مینجمنٹ سسٹم اور پروفیشنل ٹریننگ کی بہتری کو خوب رواج بخشا گیا۔ آن لائین داخلوں اور امتحانی نظام میں اصلاحات لانا بھی حسن کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بطور خاص ملکی و غیر ملکی اداروں سے معاونت کا پہلو بھی قابل تعریف پیش رفت تھی۔
واقعی جامعہ کو ایک کمیونٹی سنٹر بنا ڈالا۔ ایک ہزار سے زائد جیل کے قیدیوں کو فراہمی تعلیم کا بندوبست کرنے پر ڈاکٹر صدیقی قیدی طلبہ کے استاد بھی قرار پائے۔ سی پیک تناظر میں دیکھیں، تو گوادر ، ملتان اور اسلام آباد میں سنٹر برائے چینی لینگوئج اور کلچر کا اہتمام کمال سرگرمی ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ملازمین کیلئے خصوصی لاؤنج بنایا گیا۔ بے بی کئیر سنٹر کی سہولت، AIOU فاؤنڈیشن کا آغاز، عمرہ سکیم کا اجراء4 ، آن لائن پینشن، ایگزیکٹو کلب کا قیام اور میڈیکل پالیسی میں اصلاحات جیسے متعدد امور استاد سے ہیومن رائٹس تک کے معاملات میں بہتری کی بنیاد رکھنے کے مترادف ہے۔ ورکرز کی رہائشوں سے فٹنس تک کے معاملات کو مدنظر رکھا گیا۔
راقم کو متعدد دفعہ ڈاکٹر شاہد صدیقی کو سننے اور سمجھنے کا موقع ملا، کئی سیمینار میں ان کی سنگت رہی، مجھے وہ تین سال قبل کے وہ لمحات بھی اچھی طرح یاد ہیں جب ڈاکٹر مختار احمد نے بحثیت چئرمین پاکستان ہائر ایجوکیشن کمیشن نے لاہور میں آل پاکستان وی سی کانفرنس کا انعقاد کیا جس کے سیشن میں راقم کو بھی پاکستان بھر کے وائس چانسلرز سے مخاطب ہونے کا موقع ملا۔ دیگر مقررین میں مجیب الرحمن شامی، امجد اسلام امجد، ڈاکٹر صغرا صدف، یاسر پیرزادہ اور حبیب اکرم نے بھی اظہار خیال کیا اس سیشن کی کمانڈ ڈاکٹر زاہد صدیقی کے پاس تھی اور وہ اس موقع پر ایک وقت استاد، محقق، دانشور، مصنف ،صحافی اور وائس چانسلر بھی لگے۔ یہ میری ان سے دوسری ملاقات کا تاثر اور انکشاف تھا کہ، پرفیکٹ میں فار پرفیکٹ جاب۔ اس سارے منظر نامہ کو اس وقت میں نے اپنے نوائے وقت کالم میں بھی کندہ کیا تھا۔ سیانے کہتے ہیں کہ حسن وہ ہے جس کی سوتنیں بھی تعریف کریں۔ پھر ہم نے دیکھا یہ اکثر کہ، جب کبھی وائس چانسلرز کا اجتماع ہوا تو لوگ ڈاکٹر شاہد صدیقی کے حسن بیان سے حسن نظر تک کی تعریف کرتے۔
میں حیران ہوا جب یہ معلوم ہوا کہ انہوں نے آئندہ دورانیہ کے لئے اپلائی ہی نہ کیا۔ یہ ان کے صابر اور شاکر ہونے کی ایک اہم دلیل ہے۔ خیر میں تو اکثر کہتا ہوں کہ سرچ کمیٹیوں کو چاہئے کہ کامیاب وائس چانسلرز کو اگلے دور یا اگلی ذمہ داریوں کی خود پیشکش کرے، اور اگر وہ کسی سے مطمئن نہ ہوں تو اس سے درخواست کریں کہ وہ آئندہ اپلائی کی زحمت ہی نہ کرے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نئی یونیورسٹیاں دھڑا دھڑ نہ بنائیں یہ تو محض ایک سیاسی وتیرہ ہے اب حقیقت یہ کہتی ہے ہم پہلے سے قائم شدہ یونیورسٹیوں کو تحقیقاتی و تدریسی رنگ دے کر گلوبل ولج میں کوئی اپنا مقام پیدا کریں۔ پلیجرزم، اقرباپروری، باہر سے لوگوں کو بلا بلاکر کبھی یونیورسٹیاں سپرد کرنا اور کبھی ایجوکیشن کمیشن سپرد کرنے کا جرم کرنا اور روز ان تجربوں سے دائروں کے سفر کو فروغ دینا آخر کب چھوڑیں گے ؟ آخر امت مسلمہ کے سوچے گی کہ ہم تحقیق میں بہت پیچھے ہیں؟ پاکستان کا کہیں شمار ہی نہیں۔ ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا یہ سمجھ اور سوچ کر کہ :
تعلیمی ہیراپھیریاں ریاست میں ناگن جیسی بیوروکریسی، زہر آلود سیاست، جان لیوا کرپشن اور کوڑھ کی کاشت والی مطلق العنانیت کو عام کرتی ہیں۔ مثبت تعلیم و تحقیق اور کمیونٹی سنٹرز اور مراکز بننے والے تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں بگاڑ کو پاش پاش کر کے بناؤ کے جاندار و جاندار دریچے کھولتے ہیں، یہی جمہوریت، یہی ملکی و ذاتی دفاع اور گھر سے ریاست تک کی اقتصادیات کو دوام بخشتے ہیں۔ جہاں تعلیم و تحقیق عشق ہوں وہاں کبھی زوال کا بسیرا ممکن ہی نہیں ۔۔۔ممالک کی مرکزیت کی آن ، مرکزوں کی شان اور اقتداروں کی جان اگر تعلیم و تحقیق نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں، سب افسانے ہیں!!!
No comments:
Post a Comment